بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مرض الوفات کی حالت میں نابالغ وارث کے لیے وصیت کر نا

سوال

مرحوم نے علالت کے دنوں میں کہا کہ یہ میرابیٹا ہے اس کو عالم بنانا اور یہ کتب اس کی ہیں اور اسی علالت میں ان کاانتقال ہوا اوردرمیان میں صحت نہیں ہوئی ، دو سری بات یہ کہی کہ میرے ذمہ تین صد نمازیں قضاء ہیں، اہلیہ نے کہا کہ یہ کیسی باتیں کر ر ہے ہیں ، تو کہا کہ ” ویسے بھی کہا ہے ، چلو چھوڑو”۔ حج پر جانے سے قبل اپنی والدہ سے کہا تھا کہ ” بحمد اللہ اب میرے ذمہ کوئی نماز قضاء نہیں ہے ۔ حالت صحت میں مرحوم کو ہر وقت باوضوء دیکھا اور نمازوں کاخوب اہتمام کر نیوالاپایا۔اس تناظر میں کتب ونمازوں کے بارے میں شریعت کاکیا حکم ہے ؟

جواب

مرحوم نے مر ض الوفات میں بیٹے کو جو کتابیں ہبہ کیں یہ ہبہ شرعاً درست نہیں ہوا؛ اس لئے ان کتابوں کو تر کہ میں شامل کرکے ورثا میں تقسیم کیاجائے، البتہ اگر سب ورثاء رضامندی سے کتابیں مرحوم کے بیٹے کو دینا چاہیں تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں اور نمازوں کے بارے میں چونکہ مرحوم نے وصیت نہیں کی اس لئے ان کافدیہ اداکرناآپ کے ذمہ لازم نہیں ۔
الفتاوی الہندیۃ،لجنةعلماءبرئاسة نظام الدين البلخي(6/109)  دارالفكر
والمجذوم وصاحب حمى الربع وحمى الغب إذا صاروا أصحاب فراش يكونون في حكم المريض مرض الموت، كذا في العيني شرح الهداية۔
الفتاوی الہندیہ،لجنةعلماءبرئاسة نظام الدين البلخي(6/109)  دارالفكر
ومن أعتق في مرضه أو باع وحابى أو وهب فذلك كله جائز وهو معتبر من الثلث ويضرب مع أصحاب الوصايا۔
بدائع الصنائع،العلامة علاءالدين الكاساني(م:587هـ) (7/338) دارالكتب العلمية
ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون؛ جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه – عليه الصلاة والسلام – أنه قال «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة»۔
مشكاة المصابيح،محمدبن عبد الله الخطيب(م: 741هـ)(2/925)المكتب الإسلامي
 عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة»…. وفي رواية الدارقطني: قال: «لا تجوز وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة»۔
ردالمحتار، ابن عابدين الشامي(م: 1252هـ) (2 / 72)سعيد
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس