نمبر1۔اگر کسی مر حوم کی طرف سے قر بانی کی جا ئے تو اس کی تقسیم میں شرعاً کیا حکم ہے اور قر بانی کرنے والے کے پاس استعمال کا کتنا اختیا ر ہے ؟
نمبر2:کسی نا بالغ بچے کی طرف سے قربانی کی جائے تو کیا جائز ہے؟ اور تقسیم میں شرعاً کیا حکم ہے اور کرنے والے کو استعمال کا کتنا اختیار ہے ؟
نمبر3:قربانی کے گو شت کو 3 حصوں میں تقسیم کریں ”ایک حصہ رشتہ دا روں کا ،ایک غریبوں کا اور ایک اپنایااپنے گھر والوں کا ”کیا یہ بات حدیث سے ثابت ہے ؟ نہیں تو پھر شرعاًتقسیم میں کس بات کا حکم ہے؟
نمبر1:- اگرمرحو م( میت ) کی طرف سے قربانی ازخودتبرعا ً(بغیر اس کی وصیت کے )کی گئی ہو تو اس کے گوشت کے کھا نا یا کسی دوسرے کو کھلانے کا اختیار حاصل ہے ۔اور اگرمرحوم نے وصیت کی ہے کہ میرے انتقال کے بعدمیرے مال میں سے قر بانی کی جا ئے تو اس صورت میں مر حوم کے 1/3 ایک تہائی مال میں سے جو قر بانی کی جائے اس کے حصے کا گوشت فقراء اور مسا کین کو دیاجانا ضروری ہے۔(ماخذہ:امدادالفتاویٰ،مولانااشرف علی التھانوی(م:1280ھ) (3/533) دارالعلوم کراتشی، امدادالاحکام، مولانا ظفراحمد العثمانی(م:1394ھ)( 4/236)دارالعلوم کراتشی)۔
نمبر2:۔نابالغ بچےکے مال میں قربانی واجب نہیں ۔اگر کو ئی شخص اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی اپنے ہی مال سے کرے تو وہ مستحب ہے اورقربانی نفل ہو گی ،جس کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ کار اور اس کا حکم وہی ہے جوجواب نمبر ۱ میں ذکر کیا گیا۔
نمبر3:۔سوال میں ذکرکردہ گوشت کی تقسیم کے طریقہ کار کو فقہاء کرام نے احادیث ہی سے مستنبط کر کے ذکر کیا ہے۔ اس لئے اس طریقہ کے مطابق عمل کر نا افضل ہے ۔
واضح رہے کہ یہ حکم صرف مسنون اور نفل قربانی کے ساتھ خاص ہے ۔نذر کی قربانی اور مرحوم کی طرف سے کی گئی وصیت کی قربانی میں سے خود کھانا جائز نہیں ، وہ فقراء پر صدقہ کرنا ضروری ہے ۔