بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مذبوحہ مرغی کی آلائیش نکالنے سے قبل گرم پانی میں ڈالنا

سوال

 آج کل مرغی کی سجی عموماً بازاروں میں تیار ملتی ہے سجی کیلئے جب مرغی ذبح کی جاتی ہے تو چونکہ اُس کی کھال نہیں اتاری جاتی اور اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرغی ذبح کرنے کے بعد اُس کا پیٹ چاک کئے بغیر اور اس کے پیٹ کی آلائش نکالے بغیر اُس مرغی کو کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیتے ہیں جس سے اس کی کھال پر لگے بال کمزور ہو جاتے ہیں اور یوں وہ بال نوچ کر با آسانی علیحدہ کر دئیے جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ مرغی سے آلائش نکالے بغیر ساری غلاظت کے ساتھ کھولتے پانی میں ڈالنے سےاس کے گوشت میں غلاظت کے آثار نہیں رہے اور کیا یہ طریقہ کار درست ہے ؟

جواب

اگر مرغی کو ایسے پانی میں ڈالا جائےجس کا درجہ حرارت 100ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ جائے یعنی شدید ابلنے لگے اور مرغی اس پانی میں اتنی دیر تک پڑی رہے کہ اتنے وقت میں نجاست گوشت میں سرایت کر جائے تو اس صورت میں اس مرغی کا کھانا جائز نہیں ہو تا ، ہمارے مشاہدہ کے مطابق عموما بازار میں سجی کیلئے تیار کی جانے والی مرغیوں کیلئے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، اس میں مذکورہ صورت حال نہیں ہوتی اس لئے جب تک ایسی صورت تحقیق سے سامنے نہ آئے اس وقت تک اس مرغی کو کھانا جائز ہے ۔
بحوث في قضايافقهية معاصرة،محمد تقي العثماني(1/429)دار العلوم الکراتشی
والثاني : قد يستشكل بعض الناس من هذا الطريق أن هذا الغطس في الماء الحار إنما  يقع قبل أن تخرج النجاسات من بطن الدجاج، فربما تسري هذه النجاسات إلى لحم الحيوان بفضل الغليان، وقد ذكر الفقهاء أنَّ مثل هذا الحيوان لا يحلُّ أبداً. . . . ولكن هذا الإشكال غير وارد في مسألتنا ؛ لأن درجة الحرارة في هذا الماء لا تبلغ إلى نقطة الغليان حيث تكون أقل بكثير من مئة درجة( مئوية). ثم بقاء الدَّجاج في هذا الماء الحار لا يجاوز دقائق معدودة لا تكفي لتشرب اللحم النَّجاسة۔
رد المحتار،ابن عابدین الشامی(م:1252ھ)(1/ 334)ایچ۔ایم۔سعید
(قوله: وكذا دجاجة   ملقاة حالة على الماء للنتف قبل شقها) قال في الفتح: إنها لا تطهر أبدا لكن على قول أبي يوسف تطهر، والعلة – والله أعلم – تشربها النجاسة بواسطة الغليان، وعليه اشتهر أن اللحم السميط بمصر نجس، لكن العلة المذكورة لا تثبت ما لم يمكث اللحم بعد الغليان زمانا يقع في مثله التشرب والدخول في باطن اللحم، وكل منهما غير محقق في السميط حيث لا يصل إلى حد الغليان، ولا يترك فيه إلا مقدار ما تصل الحرارة إلى ظاهر الجلد لتنحل مسام الصوف، بل لو ترك يمنع انقلاع الشعر۔
  فتح القدیر،محمد بن عبدالواحد ابن ہمام(م:861ھ)(1/211)رشیدیۃ
ولو ألقیت دجاجة حال الغلیان في الماء قبل أن یشق بطنہا لتُنتَفَ أوکَرِشٌ قبل الغسل لایطہرُ أبدًا، لکن علی قول أبي یوسف یجب أن یُطہَّر علی قانون ما تقدم في اللحم، قلت: وہو – سبحانہ أعلم – ہو معلل بتشربہما النجاسةَ المتخللة بواسطة الغلیان، وعلی ہٰذا اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس لا یطہَر، لکن العلة المذکورة لا تثبت حتی یصل الماء إلی حد الغلیان، ویمکث فیہ اللحم بعد ذٰلک زمانًا یقع في مثلہ التشرب والدخول في باطن اللحم، وکل من الأمرین غیر متحقق في السمیط الواقع، حیث لا یصل الماء إلی حد الغلیان، ولا یترک فیہ إلا مقدار مَا تَصِلُ الحرارة إلی سطح الجلد، فتنحل مسام السطح من الصوف بل ذلک الترک یمنع من وجودہ انقلاع الشعر، فالأولی في السمیط أن یطہر بالغَسل ثلاثا لِتَنَجُّسِ سطح الجلد بذلک الماء؛ فإنہم لا یحترسون فیہ من المنجس، وقد قال شرف الأئمة بہذا في الدجاجة والکَرِشِ، والسمیطُ مثلہما۔
                        حاشیۃ الطحطاوی،احمد بن محمد الحنفی(م:1231ھ)(ص:160)رشیدیۃ
لو ألقيت دجاجة حال غليان الماء قبل أن يشق بطنها لتنتف أو كرش قيل أن يغسل إن وصل الماء إلى حد الغليان ومكثت فيه بعد ريشها فتطهر بالغسل وتمويه الحديد بعد سقيه بالنجس مرات ويتجه مرة لحرقه وقبل التمويه يطهر ظاهرها بالغسل والتمويه يطهر باطنها عند أبي يوسف وعليه الفتوى۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس