قال اللہ تعالی عزوجل:[الأحزاب:5]
{ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ}.
الفتاوی الہندیۃ،لجنةالعلماء برئاسة نظام الدين البلخي(1/268)رشیدیة:
ولوکان الشہودیعرفونھاوھی غائبۃ فذکرالزوج اسمہالاغیروعرف الشہودانہ اراد بہ المراۃالتی یعرفونہاجازالنکاح کذافی محیط السرخسی.
معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع العثمانی (م:1362ھ) (7/84) مکتبہ معارف القرآن:
دوسرامسئلہ متبنی بیٹےکاہے۔۔۔اورچونکہ اس آخری معاملے کااثر بہت سے معاملات پرپڑتاہے اس لئےیہ حکم نافذ کردیاگیاکہ متبنی بیٹے کو جب پکارویا اس کاذکرکروتواس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کرکے ذکرکرو۔جس نے بیٹابنالیاہے اس کا بیٹاکہہ کر خطاب نہ کرو،کیونکہ اس سے بہت سے معاملات میں اشتباہ اور التباس پیداہوجانے کاخطرہ ہے ۔
کفایت المفتی :مفتی کفایت اللہ الدھلوی(م:1372ھ) (9/56)ادارۃ الفاروق:
تبنیت یعنی کسی دوسرےکے بیٹے کو اپنابیٹا بنانا یعنی حقیقی بیٹے کے احکام اس پر مرتب کرنا جیساکہ عرب میں دستورتھا اور اب بھی ہندؤوں اور بعض دوسری قوموں میں مروج ہے ،منسوخ اور مردود ہوچکا۔ اس میں کوئی نزاع نہیں،یہ شرعاًاورعقلاًباطل ہے۔ ۔۔ رہی یہ بات کہ اگر زید عمرو کے بیٹےکولےکراپنے بیٹے کی طرح پرورش اور تر بیت کاتکفل کرے اور یہ کہے کہ میں نے عمرو کے بیٹے کو بیٹاکرلیاہے،یعنی مثل اپنے بیٹے کے اس کی پرورش وتربیت کا کفیل ہوگیا ہوں،ہے وہ عمرو ہی کا بیٹا ، میرا حقیقتًا بیٹا نہیں ہے،ہاں! متبنی ہے تواس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔۔۔۔۔