بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مال کی زکوٰۃ میں قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوگا یا قیمت خرید کا؟

سوال

میرا سپیئر پارٹ کا کام ہے میں جب چیز خریدتا ہوں تو مجھے دس ہزار کی پڑ جاتی ہے اور بیچنے کے لیے کوئی قیمت متعین نہیں ۔ کبھی بیس ہزار،کبھی پندرہ ہزار،کبھی دس ہزار،کبھی آٹھ ہزار پر بھی بیچ دیتا ہوں۔ آیا میں زکوۃ دیتے وقت قیمت خرید کا حساب لگاؤں جبکہ وہ متعین ہے کیونکہ قیمت فروخت متعین نہیں ہوتی۔اس مسئلہ کا حل شریعت کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔

جواب

زکوٰۃ کی ادائیگی میں بازاری قیمت کے اعتبار سے قیمت فروخت کا اعتبار ہے زکوٰۃ ادا کرتے وقت جو ریٹ مارکیٹ میں ہوگا اس حساب سے زکوۃ ادا کردی جائے گی۔
رد المحتار(3/251)رشیدیۃ
(قوله وهو الأصح) أي كون المعتبر في السوائم يوم الأداء إجماعا هو الأصح فإنه ذكر في البدائع أنه قيل إن المعتبر عنده فيها يوم الوجوب، وقيل يوم الأداء وفي المحيط: يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح اهـ فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليه عنده وعندها۔
بدائع الصنائع(2/111)مکتبہ علمیۃ
لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا۔
فتاوی الھندیۃ(1/19)دار الکتب العلمیۃ
وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب؛ لأن الواجب أحدهما ولهذا يجبر المصدق على قبوله وعندهما يوم الأداء. وكذا كل مكيل أو موزون أو معدود، وإن كانت الزيادة في الذات بأن ذهبت رطوبته تعتبر القيمة يوم الوجوب إجماعا۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس