بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مال پہنچانے میں تاخیر پر التزام بالتصدق کی شرط لگانا

سوال

اگر کسی وینڈر /سپلائر /بائع کی زبانی /تحریری کو ٹیشن حوالہ پر پرچیز آرڈرجاری کردیاگیاہو اور اس کو وینڈرنے قبول کرلیا ہو تو وقتِ مقررہ پر کمپنی کو مال نہ پہنچانے کی صورت میں کمپنی کی پروڈکشن رکنے سے ہونے والے نقصان کاذمہ دار کس کو ٹہرایاجائے گا؟نقصان سےبچنے کے لئے التزام با لتصدق کی شرط کن الفاظ کے ساتھ لگائی جائے ؟مثلاً اگر ہم یوں کہیں اگر آپ /وینڈر /بائع نے یکم جنوری تک ہمیں مطلوبہ مال نہ پہنچایاتو تاخیر ہونے کی صورت میں آپ ہماری کمپنی کے شریعہ ایڈوائزر کی زیر نگرانی بحساب یومیہ کل ثمن کے ایک فیصد کافقراء پر صدقہ کریں گے ، تو یہ درست عبارت ہوگی ؟بصورت دیگر درست وموزوں عبارت وطریقہ التزام با لتصدق بیان فر مادیں ۔

جواب

مذكوره صورت ميں كمپنی کو نقصان سے بچانے کے لئے عقد سے ہٹ کراضافی طورپرالتزام بالتصدق کروانے کی ضرورت نہیں ، بلکہ بہتریہ ہے کہ خریدوفروخت کا وعدہ کرتے ہوئے سپلائر اور کمپنی دونوں کو وعدہ پورا کرنے کاپابندبنایاجائے ۔ سپلائر کو مال بروقت پہچانے کا پابند بنایاجائےاور کمپنی کوپابند بنایاجائے کہ اگر سپلائر کمپنی کی مطلوبہ صفات کے مطابق بروقت مال لے آئے تو کمپنی اسے قبول کرے ، اس مقصد کے لئے معاہدہ ان الفاظ میں کیا جاسکتا ہے کہ ’’سپلائر اگرکسی معتبر اور حقیقی عذرمثلاً ہڑتال، لوڈ شیڈنگ کے بغیربروقت مال مہیا نہ کرے اوراس کی وجہ سے کمپنی کوکوئی واقعی نقصان ہوتو سپلائر اس واقعی نقصان کی تلافی کرے گا، اور مال مطلوبہ اوصاف کے مطابق بروقت پہنچ جانے پر کمپنی اگر اسے قبول نہ کرے تو اس کی وجہ سے سپلائر کو جو واقعی نقصان ہوگا کمپنی اس کی تلافی کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔
اسی طرح اگرکسی ایسے مال کو مقررہ تاریخ پر پہنچانے کا آرڈر دیاجارہاہوجس میں کاریگری کرنی پڑتی ہوتووہاں باہمی رضامندی سے یہ شرط بھی عائدکی جاسکتی ہے کہ سپلائر مال پہچانے میں جتنے دن تاخیرکرے گا فی یوم کے حساب سے اتنی قیمت کم ہوجائے گی۔
بحوث فی قضایافقہیۃمعاصرہ،مفتی محمدتقی العثمانی (2/111)دارالعلوم کراتشی
أما أثر کون المواعدۃ لازمۃ، فلا یتجاوز من أن یجبر الحاکم الفریقین علی إنجاز العقد  فی التاریخ الموعود۔
   فقہ البیوع،مفتی محمد تقی العثمانی(1/86،87)دارالعلوم کراتشی
 ولکن قد تظھرھناک حالات یمکن أن تجعل المواعید فیہا لازمۃ فی القضاء لأن الإخلاف فیہا یؤدی إلی ضرر بین للموعود لہ، مثلاً: إن وعد أحد بشراء بضاعۃ من تاجر، وقد تکلف التاجر نفقات باھظۃ،وتحتمل جھدًا  کبیرًا للحصول علیہا بناء علی وعد المشتری بأنہ سیشتر یھا منہ، وقد تکون البضاعۃ مما لا یوجد  لھا المشترون  إلا بقلۃ فلو امتنع المشتری عن الوفاء   بوعد ہ، فإن ضررالتاجر ظاھر، فالقول بعدم لزوم الوعد فی مثل ھذہ الحالۃ یعوق الناس  عن الد خول فی المعاملات التجاریۃ الکبیرۃ، ولا سیما فی التجارۃ الدولیۃ الیوم، حیث أن العقود فیھا إنما تبنی علی أساس الوعود والمساومات التی تأخذ وقتًا  طویلًا، ولولا أن ھذہ الوعود لازمۃ فی القضاء، لم یثق أحد بآخر، ولا اجترأ علی الدخول معہ فی البیع فإن إمثال ھذہ الحالات ھی التی قال  فیھا فقہاء الحنفیۃ : وقد تجعل المواعید لازمۃ لحاجۃ الناس کماأسفلناعن رد المحتار وغیرہ

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

5

/

36

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس