بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

لیز پر لی ہوئی گاڑی آگے مالکانہ طورپر دینے کا متبادل/کنونشل بینک سے گاڑی لینا

سوال

مختلف اسلامی بینکوں کے ذریعے گاڑیاں لیز پر لینے کی صورت میں اس کی قیمت کے تعین کے سلسلے میں مختلف اسلامی بینک (کےآئی بی آر 3)کے لحاظ سے9فیصد شرح منافع اور 30/20 فیصد ڈاون پیمنٹ /ایڈ وانس پر اپنی گاڑی کی قیمت لگاتےہیں جب کہ سودی بینک (کے آئی بی آر)ریٹ ف6 فیصد ڈاون سود کے لحاظ سے اپنی گاڑی کی قیمت لگاکر بغیر ڈاون پیمنٹ /ایڈوانس پر قسطوں کی ترتیب بناتے ہیں۔ ہم نے اپنی کمپنی میں مختلف لوگوں اور استعمالات کے لحاظ سے مختلف گاڑیاں قسطوں پر لینی ہوتی ہیں جس میں کچھ گاڑیاں ہم نے اپنی کمپنی کے ملازمین اور کمپنی سے وابستہ غیر ملازمین (کمیشن ایجنٹ )کو قسطوں پر لے کر دینی ہوتی ہیں لیکن یہ ملازمین یا غیر ملازمین خود کسی بھی بینک سے گاڑی لیز کرواناچاہیں تو بینک ان کی مالی حالت کو دیکھتے ہو ئے ان کو اجارہ /لیزنگ کی سہولت فراہم نہیں کرتا ان حقائق کی روشنی میں کمپنی کے لئے اپنی گاڑیاں یا اپنے ملازمین یا غیر ملازمین کو سستی لیز پر آسان اقساط اور مالکانہ حقوق پر دینے کے لئے
نمبر1:۔ ہماری کمپنی کےلیے اسلامی بینک کا شرح منافع زیادہ ہونے کو مد نظر رکھتے کنو نشل بینک سے کم شرح سود / منافع پر گاڑی لیز کر وانے کی گنجائش ہو سکتی ہے ؟
نمبر2:۔اگر کمپنی ملازمین کو کنو نشل بینک سے گاڑی لیز کر وادے تو کیا یہ شرعاً درست ہے؟ جبکہ اس میں کمپنی اور ملازمین دونوں کو کافی مالی بچت ہوسکتی ہے ۔
نمبر3:۔ کمپنی کے ملازمین اور مینیجر وغیرہ کو مالکانہ حقوق پر اور آسان اقساط پر گاڑیاں دینے کےلئے کمپنی اسلامی بینک سے کار اجارہ /لیزنگ میں شرعاً کیادرست طریقہ کار اختیارکرے کہ اس کے لئے اسلامی بینک سے گاڑی کار اجارہ کے تحت لے کر اپنے ملازمین اور مینیجر وغیرہ کو مالکانہ حقوق پر آسان اقساط پر کار اجارہ کے تحت لیز شدہ گاڑیاں دیناشرعاً درست ہو جائے ۔

جواب

نمبر1:۔کنونشل بینک سے لیزپر گاڑی لینا یاکسی بھی قسم کا سود پر مشتمل معاملہ اور لین دین کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ نمبر2:۔ شرعاً اس کی بالکل بھی اجازت نہیں ۔
نمبر1:۔کنونشل بینک سے لیزپر گاڑی لینا یاکسی بھی قسم کا سود پر مشتمل معاملہ اور لین دین کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ نمبر2:۔ شرعاً اس کی بالکل بھی اجازت نہیں ۔
نمبر3:۔اس کے کئی طریقے ہیں ، آپ کے لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ بینک سے گاڑی عقد مرابحہ کے طور پر خرید لیں ،پھر آپ کےلئے وہ گاڑی آگے اپنے ملازمین کو مالکانہ حقوق کے ساتھ مع منافع کے بیچنا یاکرایہ پر دینا شرعاً جائز ہوگا، بشرطیکہ اس میں تمام شرعی شرائط کا خیال رکھا گیاہو۔
وقال اللہ تعالی: [البقرة: 275]
{وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا}
إعلاء السنن،مولاناظفر أحمد العثمانی (م:1394ھ)(13/6443،648)دارالفکر
عن علی أمیر المؤمنین مر فوعاً: کل قر ض جر منفعہ فہو ربا…. وقال موفق فی المغنی:وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فہوحرام  بلاخلاف
فقہ البیوع، مفتی تقی العثمانی حفظہ اللہ (2/633) معارف القرآن کراتشی
إن کان راس المال نقداً، فلاخلاف فی جواز المرابحۃ ،مثل أن یکون البائع اشتری شیئاً بمائۃ درھم ،فیجوز لہ أن یبیعہ مرابحۃ بربح عشرۃ…. أما المصارف غیرالربویۃ،فبدلاًمن أن تقرضھم المبالغ النقدیۃ،تشتری تلک البضاعات بنفسها حالٍّ، ثم فبيع إليهم تلك البضاعات بثمن زائد مؤجل.  وبما أن العملاء  یتقدمون إلی البنوک بطلب منھم أن یشتری البنک تلک البضاعۃ،ثم یعقد المرابحۃ المؤجلۃمعھم،فإن ھذا یسمی ”المرابحۃ للآمربالشراء”

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس