بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

لیز پر حاصل کردہ گاڑی کے حصے تبدیل کرنا

سوال

ہماری کمپنی گاڑی ،کار اجارہ کے تحت میزان بینک سے لیز کرواتی ہے جس کے ٹائر جزل کے ہوتے ہیں ۔کمپنی وہ ٹائر نکلواکر کسی دوسری اچھی اور مہنگی کمپنی کے ٹائر گاڑی میں ڈلوادیتی ہے اور جو رقم کا فرق ہوتاہے وہ اداکر دیتی ہے ۔
نمبر 1 :۔کیاکمپنی کابینک کی اجازت کے بغیر اس طرح ٹائر تبدیل کر وانادرست ہے؟ اگر یہ طریقہ کار درست نہیں تو متبادل شرعی طریقہ کار کیاہے ؟
نمبر 2 :۔کیاٹائر دے کر ٹائر لینا اور او پر سے اضافی پیسے دیناشرعاًدرست ہے؟
اسی طرح کمپنی کا بینک کی اجازت کے بغیر گاڑی کی دیگر اشیاء مثلاًسیٹ کور، پریشر ہارن، ٹیپ ریکارڈ، بیک کیمرہ، ایل۔سی۔ڈی اور ہیڈ لائٹ وغیرہ کے تبدیل کروانے کے کیاشر عی احکام ہیں؟

جواب

کمپنی کا گاڑی کے ٹائر یاکسی اور حصہ کوسوال میں ذکرکردہ طریقے کے مطابق تبدیل کرنا عقدِ بیع ہے، اور مدتِ اجارہ کے دوران بینک کی اجازت کے بغیر کمپنی کے لئے گاڑی یااس کے کسی حصے کو بیچنا ناجائز اور ممنوع ہے کیونکہ عقدِ اجارہ کی وجہ سےکمپنی کی جانب گاڑی کی ملکیت منتقل نہیں ہوتی ، صرف اسے استعمال کرنے کا حق ملتا ہے، اس کا حل یہ ہے کہ کمپنی گاڑی کے ٹائروغیرہ کو اتارکرمحفوظ کر لے اور اپنی جانب سےایسا ٹائر وغیرہ لگادے جس کی وجہ سے گاڑی کو نقصان نہ پہنچے۔ البتہ اگر بینک کی جانب سے مذکورہ عقدِ بیع کی دلالۃ ً اجازت ہومثلاًکمپنی کااپنے استعمال کی خاطر گاڑی کے اصل ٹائر وغیرہ کو سوال میں ذکرکردہ طریقے کے مطابق تبدیل کرنا معروف ہوچکاہواور بینک علم کے باوجود منع نہ کرے تواس کی گنجائش ہےبشرطیکہ وہ ٹائرگاڑی کو نقصان نہ پہنچائیں۔
دررالحكام في شرح مجلة الأحكام،علي حيدر (م:1353هـ)(1/ 695) دار الجيل
المأجور أمانة في يد المستأجر إن كان عقد الإجارة صحيحا أو فاسدا أو باطلا بالنسبة إلى الآجر والمستأجر لما بينهما من الاتفاق
دررالحكام في شرح مجلة الأحكام،علي حيدر (م:1353هـ)(1/ 697) دار الجيل
 إذا استأجر أحد دابة على سرج فنزع سرجها ووضع عليها سرج غيرها وهو لا يوافقها وعطبت ضمن جميع قيمتها. أما إذا وضع على ظهرها سرجا موافقا لها وتلفت فلا يضمن
بدائع الصنائع،العلامة علاءالدين الكاساني(م:587هـ)(5/146)دارالكتب العلمية
(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم»۔
 مجلة الأحكام العدلية،لجنة مكونة من عدة علماءوفقهاءفي الخلافة العثمانية(م:1353ھ) (1/188) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي
(مادة 971) كما يكون الإذن صراحة يكون دلالة أيضا مثلا: لو رأى الولي الصغير المميز يبيع ويشتري وسكت ولم يمنعه يكون قد أذنه دلالة

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس