بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

قرعہ اندازی سے خریدی ہوئی پلاٹ کی فائل کی خریدوفروخت

سوال

ایک مسئلہ میں شرعی راہنمائی مطلوب ہے ۔ ہمارے ہاں ایک سوسائٹی ہے جو قرعہ اندازی کےذریعے پلاٹ فروخت کرتے ہیں جس کی صورت یہ ہے کہ سوسائٹی پچاس ہزار روپے لے کر ایک فارم جاری کرتی ہے اور پھر کچھ عرصے بعد قرعہ اندازی میں اس فارم کو شامل کیا جاتا ہے اگر حاملِ فارم کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے تو اس کو پلاٹ فروخت کر دیا جاتا ہے اور اس کے پچاس ہزار پلاٹ کی قسطوں میں شامل کر لیے جاتے ہیں اور جس کا نام نہ آئے سوسائٹی ان کے پیسے ضبط کر لیتی ہے ، نیز اس بابت بھی جواب مطلوب ہے کہ بعض افراد مذکورہ فارم خرید کر قرعہ اندازی سے پہلے آگے دوسروں کو کچھ زائد رقم پر فروخت کر دیتے ہیں اور اس طرح قرعہ اندازی تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے آیا اس طرح کرنے کی گنجائش ہے ؟ جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر پلاٹس کی خریداری کے لیے قرعہ اندازی کا فارم خریدار سے فارم پر آنے والے حقیقی اخراجات کے بقدر رقم لے کر جاری کیا گیا ہو اور پھر قرعہ اندازی میں نام نہ نکلنے پر وہ رقم سروس چارجز کے نام پر کاٹ دی جاتی ہو تو شرعاً ایسی قرعہ اندازی میں شامل ہو کر پلاٹ خریدنے کی گنجائش ہے ، البتہ اگر فارم خطیر رقم لے کر جاری کیا جاتا ہو جیسے سوال میں مذکور ہے تو اس صورت میں قرعہ اندازی میں نام نہ نکلنے پر حاملِ فارم کی رقم میں سے حقیقی اخراجات کے علاوہ رقم سروس چارجز کے طور پر رکھنا ہر گز جائز نہیں اور اس طرح کی قرعہ اندازی میں شامل ہو کر پلاٹ خریدنے سے اجتناب کیا جائے اور یہ بات بھی واضح رہے کہ قرعہ اندازی کا فارم سوسائٹی کے مالکان کو دیے جانے والے قرض کی رقم کی رسید ہوتی ہے ،لہذا حاملِ فارم اگر قرعہ اندازی سے پہلے خریدا ہوا فارم کمی بیشی کے ساتھ آگے فروخت کرے گا تو یہ معاملہ سود اور غرر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام ہوگا ۔
کما قال اللہ تعالیٰ
أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا۔(البقرۃ،275)۔
أحكام القرآن للجصاص (2/ 184) دار إحياء التراث العربي
 والثاني التفاضل في الجنس الواحد من المكيل والموزون على قول أصحابنا ومالك ابن أنس۔
رد المحتار(4/ 61)دار الفکر
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي۔
رد المحتار (6/ 403)
القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس