بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

قرض مجہول کا معاملہ

سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ایک صاحب اپنے ایک عزیز سے ملاقات کے لئے گئے ،ملاقات کے اختتام پر ان عزیز نے انہیں اپنے ایک متعلق سے قرض لے کر ہدیہ دیا ،لیکن قرض اس انداز سے لیا کہ نہ قرض لینے والے کو رقم کا معلوم ہے اور نہ ہی قرض دینے والے کو صرف مہمان کو پتہ ہے کہ رقم کتنی ہے، مثلاً؛ صورت حال یوں بنی کہ قرض دینے والے نے بٹوہ آگے کیا جس سے مستقرض(قرض لینے والا) نے دیکھے بغیر رقم لی اور آگے اپنے مہمان کو بطورِ ہدیہ دے دی اور مقرض (قرض خواہ)سے یہ کہا کہ یاد رکھنا یہ رقم میرے ذمے تمہارا قرض ہے ، اب جب مہمان واپس آکر اپنی گاڑی میں بیٹھا تو اسے کچھ شبہ ہوا تو اس نے قرض دینے والے سے معلوم کیا کہ آپ دونوں کا یہ معاملہ قرض کا ہے یا ہدیہ کا ہے؟اورکیا تمہیں اس قرض کی مقدار معلوم ہے ؟تو اس نے کہا نہیں ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس طرح مجہول رقم کا قرض لینا دینا شرعاًکیسا ہے ؟ اور اگر مہدی ٰ لہ(جس کو ہدیہ دیا گیا) کو معلوم ہوجائے کہ ان دونوں حضرات کو اس قرض کی مقدار کا علم نہیں تو اس کے لئے اس رقم کے استعمال کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قرض کے معاملے میں قرض کی مقدار کا معلوم ہونا شرط ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں مستقرض(مقروض)اور مقرض (قرض خواہ) نے جو اندازاً قرض کا معاملہ کیا شبہ ربا کی وجہ سے یہ معاملہ شرعاً ناجائز ہے اور مُہدی لہ (جس کو ہدیہ دیا گیا )کے لئے بھی مذکورہ رقم کا استعمال جائز نہیں کیونکہ یہ رقم اس کو ایسے معاملے کی بنا ءپر ملی جو شرعاً فاسد ہے ۔
:الفقه الاسلامي واد لته (5/3792)رشیدیۃ
وشرطہ ان یکون مال القرض معلوم القدر کیلا او وز نا او عددا او ذرعا لیتمکن من ردہ
:رد المحتار(5/ 167) دارالفکر 
(قوله استقراض العجين وزنا يجوز) هو المختار مختار الفتاوى واحترز بالوزن عن  المجازفة۔
:الفتاوى الهندية (3/ 201) دار الفكر 
ويملك المقبوض بالقرض الفاسد لأن الإقراض الفاسد تمليك بمثل مجهول فيفسد وملكه بالقبض كالمقبوض في البيع الفاسد والمقبوض بحكم قرض فاسد يتعين للرد
:الدر المختار (5/ 161) دار الفكر 
واعلم أن المقبوض بقرض فاسد كمقبوض ببيع فاسد سواء
:رد المحتار(5/ 98) دار الفكر 
(قوله الحرمة تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

21

/

25

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس