بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

قرآن کریم کا تلفظ سیکھنے کیلئے رومن اردو میں اس کا تلفظ کرنا

سوال

نمبر۱۔سورۃ انساء کی آیت نمبر 29 کی روشنی میں تجارت میں ( عن تراض منکم) باہمی رضامندی سے کیا مراد ہے؟ یعنی اگر دکان دار اپنے سامان پر حاصل ہونے والا منافع گاہک پر خفیہ رکھے تو کیا باہمی رضامندی کا مذکورہ بالا تصور واضح ہوسکے گا؟ جبکہ منافع اکثر و بیشتر من مانی پر مبنی ہو۔
نمبر۲۔ آسان الفاظ میں شریعت کی رو سے جائز منافع کا تعین کس طرح ہو؟
نمبر۳۔ اسی آیت میں ولا تقتلوا انفسکم ( تم ایک دوسرے کو قتل نہ کرو) سے عرف عام میں قتل مراد لیا جائے گا یا آیت مبارکہ کے موضوع کے مطابق معاشی قتل مراد ہے؟

جواب

نمبر۱۔ سورۃ نباء کی مذکورہ آیت کریمہ میں تجارتی معاملات میں فریقین کی رضا مندی کے عنصر کو اجاگر کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فریقین کے درمیان کوئی بھی معاملہ یا معاہدہ باہمی رضا مندی کے بغیر انجام نہیں پائے گا اس اصول کے تحت معاملات میں باہمی رضامندی ایک لازمی جز ہے۔خریدو فروخت کے معاملے میں فریقین مبیع (بیچی جانے والی چیز) کی کسی بھی قیمت پر معاملہ کرنے میں آزاد ہیں۔ مارکیٹ کے عرف کے مطابق،دھوکہ دہی کے بغیر کسی بھی قیمت پر بیع ہو جائے تو وہ مذکورہ آیت کے خلاف نہیں ہوگا لیکن اگر بائع(بیچنے والا) نے خریدار کی لاعلمی یا مجبوری سے فائدہ اٹھا کر غیر معمولی منافع حاصل کیا تو ایسا کرنا درست عمل نہیں ہوگا اور حاصل کردہ کمائی بھی طیب نہیں ہوگی خواہ اس معاملہ میں خریدار کی ظاہری رضا مندی ہی کیوں نہ ہو۔
نمبر۲۔ نیز کوئی شخص اپنی اشیاء فروخت پر کتنا نفع لے سکتا ہے اس کے لئے شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ نفع کی کوئی حد شریعت نے مقرر نہیں کی، خریدار کے علم میں لا کر مارکیٹ اور عرف عام کے مطابق فریقین جس قیمت پر بھی راضی ہو ں معاملہ کر سکتے ہیں ، البتہ خریدار کی مجبوری یا لا علمی سے فائدہ اٹھا کر غیر معمولی نفع حاصل کرنا شرعا غبن کہلاتا ہے اور ایسا کرنا درست نہیں ۔
نمبر۳۔ اس آیت مبارکہ میں (ولا تقتلوا انفسکم) سے عرف عام میں قتل کرنا مراد ہے یعنی نہ تو تم خودکشی کرو کیونکہ خودکشی حرام ہے اور نہ ہی کسی ایک دوسرے کو ناحق قتل کرو” ( معارف القرآن)
تفسیر مظھری( ۲/ ۱۸ ) رشیدیۃ
ولا تقتلو انفسکم – فیل معناه لا يقتل احدکم  نفسه عن ثابت بن الضمان آن رسول اللہ صلی اللہ قال : من قتل نفسہ بشئ فی الدنیا عذب بہ یوم القیمۃ
سنن الترمذي (2/ 506) بيروت
عن أبي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: التاجر الصدوق الأمين مع النبيين، والصديقين، والشهداء
الھندیۃ (1/161)بیروت
و من اشتری شیئا واغلی في ثمنه فباعه مرابحۃ على ذالك جاز وقال ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ اذا زاد زیادة لا يتغابن الناس فيها فانی لا احب ان یبیعہ مرابحہ حتی یتبین۔
 بحوث في قضايا فقيہ معاصرۃ (ص:13) مکتبۃ معروفیۃ
 وللبائع ان یبیع بضاعته بما شاء من ثمن ولا يجب عليه أن يبيعه بسعر السوق دائماً
فقہ البیوع(1/141) معارف القرآن
اما اذا لم یکن البائع احتفظ بسعر معلوم ، فالنجش ممنوع فی القانون الا نکلیزی

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

19

/

82

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس