بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

قرآن کریم حفظ کرنے کےبعد یاد رکھنا فرض یا واجب؟

سوال

قران حکیم حفظ کرنے کے بعد اس کو یاد کرنے کا کیا حکم ہے؟آیا فرض ہے یا واجب ؟ وضاحت فرما دیں ۔

جواب

قرآن ِکریم حفظ کرنے کے بعد اس کو یاد کرنے کا حکم (فرض ،واجب ) ہمیں صراحت کے ساتھ شراحِ حدیث و فقہاءِ امت کی عبارات میں تو نہیں ملا البتہ قرآنِ کریم کو بھلانے اور اس پر عمل ترک کرنے کے بارےمیں جو وعیدیں آئی ہیں وہ فرض و واجب کی طرح ہی شدید ہیں ۔جیسے قرآن کریم میں ہے کہ
{وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوْرًا } [الفرقان: 30]
ترجمہ: اور رسول اللہ ﷺ کہیں گے :یا رب ! میری قوم اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی۔
مذکورہ آیت میں بہت سخت وعید ہے کہ : رسول اللہ ﷺ روز قیامت خود اللہ تعالی سے (قرآن پر ایمان نہ لانے والوں اور اس کو بالکلیہ ترک کرنے والوں ) شکایت کریں گے اسی طرح ایک حدیث میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
عن سعد بن عبادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من امرئ يقرأ القرآن، ثم ينساه، إلا لقي الله عز وجل يوم القيامة أجذم».
ترجمہ: جس شخص نے بھی قرآن کو یاد کرنے کے بعد اسکو بھلا دیا قیامت کے روز وہ اللہ سے کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو کر ملے گا ۔
ایک اور حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا :
وعرضت علي ذنوب أمتي، فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل ثم نسيها».
ترجمہ: مجھ پر میری امت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے اس شخص سے بڑا گناہ کسی کا نہ دیکھا جس کو قرآن کی کوئی سورت عطا کی گئی پھر اس نے اسکو بھلا دیا۔
نيز فقہاءِ کرام اور شراحِ حدیث نے بھی اس کو عظیم گناہوں میں شمار کیا چناچہ حافظ ابن حجر ؒ ” فتح الباری” میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: واختلف السلف في نسيان القرآن فمنهم من جعل ذلك من الكبائر ترجمہ: سلف سےمیں بعض نے قرآن کے بھولنے کو کبیرہ گناہو میں شمار کیا ہے اسی طرح فتاویٰ ہندیہ میں بھی مندرجہ ذیل عبارت اسی پر دلالت کرتی ہے : اذا حفظ القرآن ثم نسیہ فانہ یاثم ترجمہ: انسان حفظ کرنے کے بعد اس کو بھول جائے تو وہ گناہ گار ہوگا ۔ ان تمام روایات اور تشریحات میں قرآن کے بھولنے پر فرض و واجب كے ترك کی طرح وعیدیں آئی ہیں۔ لیکن نسیان (بھولنے) سے کیا مراد ہے اور کس طرح کے بھولنے پر یہ وعیدیں آئی ہیں اس کی تشریح میں فقہاء امت کے اقوال کے مختلف ہیں : احناف کا رجحان اس طرف ہے کہ نسیان کا اطلاق ایسے بھولنے پر ہے کہ انسان حفظ کرنے کے بعد قرآن كو ايسا ترك كر دے کہ دیکھ کر پڑھنے پربھی قادر نہ ہو اور شوافع كے نزديك زبانی نہ پڑھ سکنے والےکو یہ وعیدیں شامل ہیں، چناچہ ملا علی قاری ؒ “مرقاۃ المفاتیح ” میں فرماتے ہیں : (مامن امرئ يقرا القرآن ثم نسيه ۔۔الخ) اي : با النظر عندنا و بالغيب عند الشافعي۔ اور فتاوی ہندیہ میں بھی نسیان کی یہی تشریح منقول ہے: وتفسیر النسیان ان لایمکنہ القرآۃ من المصحف مذکورہ تمام تشریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان قرآن یاد کرنے کے بعد اس طرح بھولے کہ دیکھ کر پڑھنے پر بھی قادر نہ ہو تو وہ گناهِ عظیم کا مرتکب قرار پائے گا۔
قال الله تعالي في كتابه المجيد
{وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا } [الفرقان: 30]
روح البيان (6/ 207)دار الفكر
 يا رَبِّ [اى پروردگار من] إِنَّ قَوْمِي قريشا اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً اى متروكا بالكلية ولم يؤمنوا به وصدوا عنه وفيه تلويح بان حق المؤمن ان يكون كثير التعاهد للقرآن اى التحفظ والقراءة كل يوم وليلة كيلا يندرج تحت ظاهر النظم الكريم وفى الحديث (من تعلم القرآن وعلق مصحفا لم يتعاهده ولم ينظر فيه جاء يوم القيامة متعلقا به يقول يا رب العالمين عبدك هذا اتخذني مهجورا اقض بينى وبينه) ومن أعظم الذنوب ان يتعلم الرجل آية من القرآن او سورة ثم ينساها والنسيان ان لا يمكنه القراءة من المصحف كما فى القنيةز۔
تفسير ابن كثير (6/ 108)دار طيبة للنشر والتوزيع
أنه قال: {يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا} ، وَذَلِكَ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُصغُون لِلْقُرْآنِ وَلَا يَسْمَعُونَهُ (8) ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ} [فُصِّلَتْ: 26] وَكَانُوا إِذَا تُلِيَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالْكَلَامَ فِي غَيْرِهِ، حَتَّى لَا يَسْمَعُوهُ. فَهَذَا مِنْ هُجْرَانِهِ، وَتَرْكُ [عِلْمِهِ وَحِفْظِهِ أَيْضًا مِنْ هُجْرَانِهِ، وَتَرْكُ] (9) الْإِيمَانِ بِهِ وَتَصْدِيقِهِ مِنْ هُجْرَانِهِ، وَتَرْكُ تَدَبُّرِهِ وَتَفْهُّمِهِ مِنْ هُجْرَانِهِ، وَتَرْكُ الْعَمَلِ بِهِ وَامْتِثَالِ أَوَامِرِهِ وَاجْتِنَابِ زَوَاجِرِهِ مِنْ هُجْرَانِهِ، والعدولُ عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ -مَنْ شِعْرٍ أَوْ قَوْلٍ أَوْ غِنَاءٍ أَوْ لَهْوٍ أَوْ كَلَامٍ أَوْ طَرِيقَةٍ مَأْخُوذَةٍ مِنْ غَيْرِهِ -مِنْ هُجْرَانِهِ۔
سنن ابي داؤد(كتاب الصلوة ، باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه)
عن سعد بن عبادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من امرئ يقرأ القرآن، ثم ينساه، إلا لقي الله عز وجل يوم القيامة أجذم»۔
سنن الترمذي (كتاب فضائل القرآن ،باب 20)
وعرضت علي ذنوب أمتي، فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل ثم نسيها»۔
فتح الباري لابن حجر (9/ 86)دارالمعرفة
واختلف السلف في نسيان القرآن فمنهم من جعل ذلك من الكبائر وأخرج أبو عبيد من طريق الضحاك بن مزاحم موقوفا قال ما من أحد تعلم القرآن ثم نسيه إلا بذنب أحدثه لأن الله يقول وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ونسيان القرآن من أعظم المصائب واحتجوا أيضا بما أخرجه أبو داود والترمذي من حديث أنس مرفوعا عرضت علي ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أوتيها رجل ثم نسيها في إسناده ضعف وقد أخرج بن أبي داود من وجه آخر مرسل نحوه ولفظه أعظم من حامل القرآن وتاركه ومن طريق أبي العالية موقوفا كنا نعد من أعظم الذنوب أن يتعلم الرجل القرآن ثم ينام عنه حتى ينساه وإسناده جيد ومن طريق بن سيرين بإسناد صحيح في الذي ينسى القرآن كانوا يكرهونه ويقولون فيه قولا شديدا ولأبي داود عن سعد بن عبادة مرفوعا من قرأ القرآن ثم نسيه لقي الله وهو أجذم۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1502)دار الفكر
وعن سعد بن عبادة قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ” ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه “، أي بالنظر عندنا، وبالغيب عند الشافعي، أو المعنى ثم يترك قراءته نسي أو ما نسي (إلا لقي الله يوم القيامة أجذم) ، أي: ساقط الأسنان، أو على هيئة المجذوم، أو ليست له يد، أو لا يجد شيئا يتمسك به في عذر النسيان، أو ينكس رأسه بين يدي الله حياء وخجالة من نسيان كلامه الكريم وكتابه العظيم، وقال الطيبي: أي: مقطوع اليد من الجذم وهو القطع: وقيل: مقطوع الأعضاء، يقال: رجل أجذم إذا تساقطت أعضاؤه من الجذام، وقيل: أجذم الحجة، أي: لا حجة له ولا لسان يتكلم به، وقيل: خالي اليد عن الخير (رواه أبو داود، والدارمي) وروى أبو داود والترمذي أنه – صلى الله عليه وسلم ۔
الفتاوى الهندية (5/ 317) دار الفكر
إذا حفظ الإنسان القرآن ثم نسيه فإنه يأثم، وتفسير النسيان أن لا يمكنه القراءة من المصحف۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس