بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

فوت شدہ آدمی کے پیسے ادا کرنے کا طریقہ

سوال

میں نے ایک آدمی کا کافی عرصہ پہلے ایک ہزار روپے کھایا ہے اب اس آدمی کا انتقال ہوا ہے، ورثاء میں ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ مجھے کتنے پیسے لوٹانے ہوں گے۔ سارے پیسے ایک کو دینے سے بری الذمہ ہو جاؤں گا یا نہیں، کیا صدقہ خیرات کا نام لے کر دے سکتا ہوں کیونکہ ان کو پتہ نہیں ہے کہ میں نے ان کا کچھ دینا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے مرحوم کی زندگی میں جو ایک ہزار روپیہ کھایا تھا، اب وہ اس (فوت شدہ)کی میراث میں شامل ہو کر ورثاء کا حق بن چکا ہے اور اس کی ادائیگی ورثاء کو کرنا لازم ہے ۔ جس کی صورت یہ ہے کہ ہر وارث کا حق معلوم کر کے اس کو اس کے حصے کی رقم ادا کر دی جائے ۔نیز صدقہ خیرات کہہ کر بھی دینے کی گنجائش ہے۔
شرح المجلۃ(المادۃ ،1092)
کما ان اعیان المتوفی المتروکۃ عنہ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصھم ،کذلک یکون الدین الذی لہ فی ذمۃ آخر مشترکا بینھم علی قدر حصصھم۔۔
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (10/ 7703)دار الفکر 
 الموروث: هو التركة، ويسمى أيضاً ميراثاً وإرثاً، وهو ما يتركه المورث من المال، أوالحقوق التي يمكن إرثها عنه، كحق القصاص، وحبس المبيع لاستيفاء الثمن، وحبس المرهون لاستيفاء الدين۔
رد المحتار (6/ 385)دار الفکر
لومات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس