بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

عورت کے لئے بیعت کا حکم و پیر کی اتباع کی حدود

سوال

نمبر1۔عورت کے لئے پیر سے بیعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
نمبر 2۔ اگر بیعت جائز ہے تو کس حد تک پیر کی تابعداری کر سکتی ہے؟ کیا بیعت کے بعد عورت پیر کی صرف شرعی امور میں تابع دار ہو گی یاغیر شرعی امور میں بھی تابع دار ہو گی؟
نمبر 3۔ کیونکہ آج کل تصور یہ دیا جا رہا ہے کہ بیعت کے بعدمرید ومرید نی مکمل پیر کے غلام بن جا تے ہیں۔اب پیر انہیں جیسے چاہے استعمال کرے اور اسی آڑ میں مریدنیو ں (عورتوں)کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہوئے ان کی عزت ِنفس پاما ل کی جارہی ہے۔
نمبر 4۔ کیا یہ جرم عظیم نہیں اگر ہے تو اس کی شرعی وقانونی سزا کیا ہو گی؟
نمبر 5۔ کیا ایسے پیر حضرات کی بیعت جائز ہے؟

جواب

نمبر1- اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول ﷺ کی محبت وعظمت دل میں بسانے ،تقوی وپرہیز گاری حاصل کرنے اور شر یعت مطہرہ کی تعلیمات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے اور گناہو ں سے بچنے کے لئے عورتوں کا کسی نیک،صالح ،متقی اور شریعت وسنت کے پا بند پیر کی بیعت کرنا بلا شبہ جا ئز بلکہ مستحب اور مسنون ہے ۔رسول اللہ ﷺنے کئی مواقع پر مذکورہ مقاصد کی خاطرخواتین کو بیعت کیا ۔ البتہ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حضور اکرم ﷺ خواتین کو صرف گفتگو کے ذریعہ بیعت فرما تے تھے ،آپ کے ہا تھ نے کسی غیر محرم خاتون کے ہاتھ کو کسی موقع پر یہاں تک کہ بیعت کے مو قع پر بھی چھوا تک نہیں ، اس لئے پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا جائز نہیں ہے ، کبیرہ گنا ہ ہے،صرف گفتگو کے ذریعہ بیعت کی جائے۔
نمبر2۔ پیر کی اتباع صرف جائز اور شریعت کے موافق امور میں کی جا سکتی ہے ، گنا ہ اور خلافِ شریعت کاموں میں پیر کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے۔
نمبر 3، 4۔ ایسا کرنا سراسر شریعت مطہرہ کے خلاف ہے اور جرم عظیم ہے ،ایسے شخص کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرکے قانونی کا روائی کی جائے۔
نمبر 5۔ بیعت اس لئے کی جاتی ہے تاکہ انسان اللہ کی نافرمانی سے بچ سکے اور تقوی والی زندگی اختیا ر کرے،جو شخص خود متقی نہ ہو اس کی بیعت ہر گز جائز نہیں ۔
قال الله تبارک وتعالی: [الممتحنة: 12]
يٰأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓى أَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّهِ شَيْئًا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ أَيْدِيْهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّهَ ط إِنَّ اللّهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.
الصحيح لمحمد بن إسماعيل البخاري(م:256ھ)(6/ 150)محمودیة
أن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية بقول الله: {يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك} [الممتحنة: 12] إلى قوله {غفور رحيم} [البقرة: 173]، قال عروة: قالت عائشة: فمن أقر بهذا الشرط من المؤمنات، قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قد بايعتك» كلاما، ولا والله ما مست يده يد امرأة قط في المبايعة، ما يبايعهن إلا بقوله: «قد بايعتك على ذلك»۔
  السنن  لمحمد بن عيسى الترمذي(م: 279ہـ)(3/ 261) بيروت
عن ابن عمر، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم: السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكرہ ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليہ ولا طاعة۔
إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري،أحمد بن محمد(م: 923ہـ)(5/ 119)المطبعة الكبرى الأميرية
(فإذا أمر) أحدكم (بمعصية فلا سمع) لہم (ولا طاعة) إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق وإنما الطاعة في المعروف۔
إعلاء السنن، ظفر احمد العثماني(17/8833)دار الفكر
قال العبد الضعيف: تزكية الأخلاق من أہم الأمور عند القوم، وہي المقامات عندہم… ولايتيسر ذلك إلا بالمجاہدة على يد شيخ كامل قدجاہد نفسہ، وخالف ہواہ وتخلى عن الأخلاق الذميمة، وتحلى بالأخلاق الحميد۔
رد المحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م: 1252ہـ)(1/ 60)سعيد
الطريقة سلوك طريق الشريعة، والشريعة: أعمال شرعية محدودة، وہما والحقيقة ثلاثة متلازمة؛ لأن الطريق إليہ تعالى ظاہر وباطن فظاہرہا الطريقة والشريعة، وباطنہا الحقيقة فبطون الحقيقة في الشريعة، والطريقة كبطون الزبد في لبنہ، لا يظفر بزبدہ بدون مخضہ۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

6

/

88

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس