الدر المختار (2/ 75) رشيدية
(ويكره أذان جنب وإقامته وإقامة محدث لا أذانه) على المذهب
(و) أذان (امرأة) وخنثى (وفاسق) ولو عالما، لكنه أولى بإمامة وأذان من جاهل تقي
(ويعاد أذان جنب) ندبا، وقيل وجوبا (لا إقامته) لمشروعية تكراره في الجمعة دون تكرارها (وكذا) يعاد (أذان امرأة ومجنون ومعتوه وسكران وصبي لا يعقل) لا إقامتهم لما مر
لأن الأصل في مشروعية الأذان الإعلام بدخول الوقت
الفتاوى التاتارخانية (2/144) فاروقية
(وليس على النساء اذان) ولا اقامة قال فى الجامع الصغير: والمرأة اذا اذنت يعاد اذانها. . . . . . . .الخ
فتاوی محمودیہ (5/455) دارالافتاء جامعہ فاروقیہ
زچہ خانہ میں تولد کے وقت اگر کوئی مرد موجود نہ ہو تو عورت کو یہ آذان و اقامت کہنا درست ہے، نابالغ سمجھدار بچہ بھی کہہ سکتا ہے۔ اگر کوئی نہ ہو تو بچے کی ماں بھی کہہ سکتی ہے اگر وہ حالتِ نفاس میں نہ ہو۔
خیرُالفتاوی (2/227) امدادیہ
اصل یہ ہے کہ نومولود کے کان میں کوئی مردِ صالح آذان دے تا کہ صورتاًبھی کراہت نہ ہو۔ ۔۔ اس کی تعلیل علّامہ طحطاویؒ یہ بیان کرتے ہیں۔ ۔ ۔ کہ نومولود کے کان میں عورت آذان دے سکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں نہ رفعِ صَوت ہے اور نہ ہی خلافِ ستر ہے۔اگر کسی عذر سے یا بدوں عذر تاخیر ہو جائے تو جب یاد آجائے کان میں آذان دے دی جائے۔