بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

عقد ِ نکاح کے وقت لڑکی کی تعیین نام سے ضروری نہیں

سوال

نکاح کے متعلق ایک مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمادیں کہ : لڑکی کے والد نے لرکی کی ماں کو طلاق دے دی بچی ایک سال سے کم عمر کی تھی۔ لڑکی کے نانا ابو نے اس کو اپنا نام دیا اور اپنی بنالیا، مطلب لڑکی کی ماں لڑکی کی قانونی طور پر بہن ہوئی، اب لڑکی کی شادی ہے لڑکی کے سسرال والے کہہ رہے ہیں کہ اگر لڑکی کے اصل باپ کا نام نہ ہو یا شناختی کارڈ نہ ہو تو کیا اس لڑکی کا نکاح شرعی طور پر صحیح ہوسکتا ہے؟

جواب

اصولی طور پر عقد نکاح کے وقت ایجاب و قبول اور گواہوں کے ساتھ ساتھ لڑکی کی تعیین بھی ضروری ہے، صورت ِ مسؤلہ میں چونکہ لڑکی متعین ہے تو یہ نکاح بلاشبہ درست ہے۔ البتہ کسی کو اپنے باپ کو علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا شرعا ً جائز نہیں۔
رد المختار (۳۷۳/۲) سعيد
و شرط حضور الشاهدين حرين او حر و حرتين مكلفين سامعين قولهما معا
رد المحتار (١٥/٣) سعيد
قلت : وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى ، لأن المقصود نفي الجهالة ، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس