بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

طلاق کے بعد مہر کاحکم

سوال

ہمارے ایک عزیز کی شادی جس لڑکی سے ہوئی اس کو شادی سے پہلے بریسٹ کینسر تھا ، جس کا علاج کروایا گیا اور وہ ٹھیک ہوگئی۔جب ان سے رشتے کی بات چلی تو ان کو بتایا گیا کہ لڑکی کو بریسٹ کینسر تھالیکن اب ٹھیک ہو چکی ہے مکمل طور پر،لیکن یہ نہیں بتایا کہ آپریشن کے ذریعے ٹھیک ہوئی ہے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ آپریشن کے ذریعے اس کا پستان ختم ہو چکا ہے ۔شادی کے بعد جب لڑکے کو آپریشن کا پتہ چلا تو اس نے کافی مسئلہ بنایا لیکن پھر چپ ہوگیا،پھر اس لڑکے نے اس لڑکی کو طلاق دے دی او ر یاد رہے کہ پستان کے مسئلے کی وجہ سے نہیں دی بلکہ گھریلو مسائل کی وجہ سے دی ہے اور فون پر طلاق دی ہے ،اس لڑکی کا مہر دس لاکھ مقرر تھا ۔اب اس لڑکے کے لیے حق مہر کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

ٍصورتِ مسئولہ میں شوہر کے ذمہ مقرر کردہ مہر (دس لاکھ روپے ) واجب ہے ،البتہ اگر لڑکی اپنی خوشدلی سے کسی قسم کی زور زبردستی کے بغیر مہر میں سے کچھ یا سار امہر معاف کر دے تو یہ اس کی جانب سے تبرع (احسان) ہوگا۔
كما قال الله تعالیٰ
وآتوا النساء صدقاتهن نحلة فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا فكلوه هنيئا مريئا۔(النساء،4)
أحكام القرآن للجصاص (2/ 351)
في قوله تعالى نحلة يعني بطيبة أنفسكم يقول لا تعطوهن مهورهن وأنتم كارهون ولكن آتوهم ذلك وأنفسكم به طيبة۔
الهداية  (1/ 200) دار احياء التراث
وإذا خلا الرجل بامرأته وليس هناك مانع من الوطء ثم طلقها فلها كمال المهر۔
الدر المختار (3/ 113)دار الفکر
(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا۔
رد المحتار (3/ 113)
(قوله وصح حطها) الحط: الإسقاط كما في المغرب، وقيد بحطها لأن حط أبيها غير صحيح لو صغيرة، ولو كبيرة توقف على إجازتها، ولا بد من رضاها. ففي هبة الخلاصة خوفها بضرب حتى وهبت مهرها لم يصح لو قادرا على الضرب. اهـ

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس