بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

طلاق اورخلع سےمتعلق

سوال

میری بیوی تقریبا ½2سا ل سے مجھ سے الگ اپنے بھائی کے گھر میں قیام پذیر ہے اور بچے بھی ساتھ ہیں، وہ بضدہےکہ مجھے طلاق دے دی جائے یا وہ خلع لے لے گی جبکہ میں یہ جدائی نہیں چاہتا بلکہ اسے آباد کرنا چاہتا ہوں ہمارا کوئی باہمی جھگڑا نہیں ہے ۔

جواب

نکاح منعقد ہوجانے کے بعد میاں بیوی کو باہمی تعلق قائم رکھنے کی اور ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی حتی الامکان مکمل کوشش کرنی چاہیئے، بلاوجہ نکاح ختم کرنا شرعاً انتہائی ناپسندیدہ ہے بلکہ اگر جانبین میں سے کسی کی جانب سے ظلم وزیادتی ہواوردوسرا اس پرصبرکرتے ہوئے اپنے اوپر عائد حقوق اداکرتارہے اور دوسرے کو معاف کرتارہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عظیم اجرکی امیدہے ،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں خاتون پرلازم ہے کہ وہ بلاوجہ نکاح کو ختم نہ کرے ، اور شوہرکی اطاعت کرتے ہوئے حتی الامکان باہمی تعلق کو قائم رکھے،لیکن اگرخاتون کے لئے کسی معقول وجہ کی بنیاد پرشوہر کے ساتھ نباہ مشکل ہوتو ایسی صورت میں اگر وہ اپنے شوہرکوطلاق دینے پر رضامند کرلے یا اس سے خلع لے لےتو اس کی گنجائش ہے،البتہ شوہرکی رضامندی کے بغیرعدالت کی جانب سے جاری کردہ طلاق یایکطرفہ خلع شرعاًمعتبرنہیں ہےکیونکہ طلاق کاحق شوہرکوحاصل ہے نیز خلع میں بھی شوہرکی رضامندی ضروری ہے،ہاں اگر شوہرمیں تنسیخِ نکاح کا کوئی سبب موجود ہومثلاًمتعنت ہو،نان نفقہ نہ دیتاہو یامارپیٹ کرتاہوتو ایسی صورت میں عدالت میں فسخ ِ نکاح کادعویٰ دائرکرکے شرعی طریقہ کے مطابق اس کے تعنت کو ثابت کرنے کے بعد عدالت سے تنسیخِ نکاح کا فیصلہ حاصل کیاجاسکتاہے۔
قال الله تبارک وتعالیٰ:[البقرة:229]
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهٖ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّهِ فَأُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
أحكام القرآن،لأبي بكر الرازي الجصاص(م:370ھ)(3 / 152)دارإحياءالتراث العربي
فقال أصحابنا ليس للحكمين أن يفرقا إلا برضى الزوجين لأن الحاكم لا يملك ذلك فكيف يملكه الحكمان وإنما الحكمان وكيلان لهما۔
وفیه أيضًا(2/95)دارإحياء التراث العربي
ولا خلاف بين فقهاء الأمصار في جوازه دون السلطان وكتاب الله يوجب جوازه وهو قوله تعالى فلا جناح عليهما فيما افتدت به وقال تعالى ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فأباح الأخذ منها بتراضيهما من غير سلطان و قول النبي صلى الله عليه وسلم لامرأة ثابت بن قيس أتردين عليه حديقته فقالت نعم فقال للزوج خذها وفارقها  يدل على ذلك أيضا لأنه لو كان الخلع إلى السلطان شاء الزوجان أو أبيا إذا علم أنهما لا يقيمان حدود الله لم يسئلهما النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك ولا خاطب الزوج بقوله اخلعها بل كان يخلعها منه ويرد عليه حديقته وإن أبيا أو واحد منهما۔
المبسوط،لشمس الأئمة محمد بن أحمد السرخسي(م: 483ھ)(6/173)دارالمعرفة
والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

6

/

49

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس