بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

شرکت میں ایک شریک کا مشترکہ کاروبار میں ذاتی کھاتہ کے حساب میں کوئی چیز خریدنا

سوال

صورت مسئلہ یہ ہے کہ الف، ب، ج،د  ایک کاروبار میں شریک ہیں اس کا روبار میں الف کا  سرمایہ بقیہ تینوں سے زیادہ ہے۔  وضاحت طلب امر یہ ہے کہ الف اپنی ذاتی (غیر مشترک) رقم کے ذریعے ب ،  ج، د سے مالِ مشترک میں سے خریداری کر سکتا ہے کہ نہیں؟  جبکہ وہ اسی کا روبار میں شریک بھی ہے اور خریداری کر کے اس شے کو اپنے ذاتی تصرف میں لا سکتا ہے یا کہ نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں الف کا اپنی ذاتی رقم سے مال مشترک میں سے کوئی چیز خریدنا  جائز ہے۔جو کہ رقم اس کے مال سے محسوب ہو جائے گی۔
:رد المحتار،ابن عابدین الشامی(م:1252ھ)(5/ 57)ایچ۔ایم۔سعید
إذا ضم البائع إليه مال نفسه وباعهما له صفقة واحدة يجوز البيع في المضموم بالحصة من الثمن المسمى على الأصح وإن قيل إنه لا يصح أصلا في شيء فتح مطلب فيما إذا اشترى أحد الشريكين جميع الدار المشتركة من شريكه قلت: علم من هذا ما يقع كثيرا، وهو أن أحد الشريكين في دار ونحوها يشتري من شريكه جميع الدار بثمن معلوم فإنه يصح على الأصح بحصة شريكه من الثمن وهي حادثة الفتوى فلتحفظ وأصرح من ذلك ما سيأتي في المرابحة في مسألة شراء رب المال من المضارب مع أن الكل ماله۔
:المحیط البرھانی،برھان الدین(م:616ھ)(10/151)بیروت
وكذا شراء رب المال شيئاً من مال المضاربة صحيح۔
: بدائع الصنائع،علاء الدین الکاسانی(م:587ھ)(5/141)العلمیۃ
ويجوز شراء رب المال من المضاربة، وشراء المضارب من رب المال، وإن لم يكن في المضاربة ربح في قول أصحابنا الثلاثة۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس