بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

شرکت اعمال میں ایک شریک کا تنخواہ لینا

سوال

آپ کی طرف سے 26/8/2023 کو جاری ہونے والا فتوی نمبر (21/41) موصول ہوا،اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے،البتہ اس میں مزید وضاحت مطلوب ہے۔
عمرو کے لئے تنخواہ لینے کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کا ابتداء میں کوئی سرمایہ نہیں لگا ،البتہ جب سے نفع آنا شروع ہوا اس کے بعد آنے والے نفع میں سے کاروبار میں بھی ضرورت کے مطابق رقم لگتی رہی اور بقیہ رقم شرکاء میں تقسیم، ہوتی رہی۔ جواب مرحمت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں عمرو کو نفع کے ساتھ تنخواہ دینا شرعاًجائز ہے اور یہ تنخواہ بھی کاروبا رکے دیگر اخراجات میں شامل ہو کر نفع تقسیم کرنے سے پہلے نکالی جائے گی ۔
:الدر المختار (6/ 60)دار الفكر
(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر۔
:رد المحتار(6/ 60) دار الفكر
(قوله؛ لأنه لا يعمل إلخ) فإن قيل: عدم استحقاقه للأجر على فعل نفسه لا يستلزم عدمه بالنسبة إلى ما وقع لغيره۔
فالجواب أنه عامل لنفسه فقط؛ لأنه الأصل وعمله لغيره مبني على أمر مخالف للقياس فاعتبر الأول، ولأنه ما من جزء يحمله إلا وهو شريك فيه فلا يتحقق تسليم المعقود عليه؛ لأنه يمنع تسليم العمل إلى غيره فلا أجر عناية وتبيين ملخصا۔

:احسن الفتاویٰ(7/328)اشاعتِ اسلام

شریک کو اجیر رکھنے کا عدم جواز کسی نصِ شرعی سے ثابت نہیں ۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس