بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

سکائی ایمز کمپنی کے کاروبار کی شرعی حیثیت

سوال

بعد از سلام عرض ہے کہ میں نے ایک کاروبار کے متعلق شرعی تحقیق کرنی ہے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ لاہور میں ایک کمپنی جس کا نام سکائی ایمز ہے اور یہ کمپنی لاہور چیمبر آف کامرس میں رجسڑڈ ہے اور اس کا بزنس کا طریقہ کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ کیا اس کاروبار کا رکن بننا اور پرافٹ کمانا شریعت مطہرہ کے مطابق صحیح ہے؟
کمپنی اپنا کاروبار درج ذیل طریقے سے کرتی ہے۔
نمبر۱۔کمپنی کے پاس دو پروڈکٹ ہیں
نمبر۲۔ایک پروڈکٹ کا نام ہے (ایلوویرا) کوارکندل کا جوس ہے کمپنی کے مطابق یہ جوس خالص ہے اور آسٹریلیا میں بنتا ہے آسٹریلیا کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کا جوس نہیں ملتا اگر ملتا ہے تو اس میں ملاوٹ ہوتی ہے۔
نمبر۳۔کمپنی کی دوسری پروڈکٹ کا نام (ایشی) ہے۔ یہ ایک پرفیوم ہے جس کو کمپنی نے خود تیار کیا ہے اور اس کی قیمت 1750روپے ہے۔
نمبر۴۔کمپنی کے نمائندے چلتے پھرتے لوگوں سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں آپ کی کیا مصروفیت ہے کیا آپ نوکری کرتے ہیں یا آپ کاروبار کرتے ہیں اب بندہ جو مرضی کرتا ہو کمپنی کا نمائندہ اس کو بتاتا ہے کہ آپ اگر اپنے کام کے بعد گھنٹے نکال سکیں تو آپ کو لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ آپ اپنے موجودہ کاروبار یا نوکری کے ساتھ بہت پیسے کماسکتے ہیں۔ اگر آپ خواہش مند ہیں تو یہ ہمارا پتہ ہے آپ فلاں ٹائم پہ وہاں آجائیں تو آپ کو گائیڈ کیا جائے گا۔
نمبر۵۔جب بندہ کمپنی کے آفس میں چلا جاتا ہے تو وہاں پہ گیلری میں مختلف علاقوں کے لوگوں کی طرف سے کمپنی کے جوس کی تعریف کیساتھ تصاویر لگی ہیں جن پہ لوگ اس بات کااظہار کررہے ہیں کہ میرا نام فلاں ہے اور فلاں علاقے کا رہائشی ہوں مجھے اتنے سالوں سے فلاں بیماری تھی میں اتنے عرصے سے (ایلوویرا) جوس پی رہاہوں اب میں بالکل ٹھیک ہوں ایسا لگتا ہے جیسے مجھے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ ان بیماریوںمیں گٹھیا بھی یرقان بھی ہے اور کئی جسمانی بیماریاں بتائی جاتی ہیں جو (ایلوویرا) جوس پینے سے دور ہوجاتی ہیں۔
نمبر۶۔اس کے بعد ایک سیمینار ہوتا ہے جہاں تمام نئے آنے والے حضرات کو بٹھایا جاتا ہے اور ایک ڈاکٹر صاحب آکر کمپنی کے جوس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت اور آفادیت بتاتے ہیں۔
نمبر۷۔اس کے بعد ایک بزنس ایکسپرٹ آتے ہیں جولوگوں کو جوس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ بتاتے ہیں کہ اگر جوس ہیلتھ کے لیے اچھا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہیلتھ کے ساتھ ساتھ ویلتھ کیسے بنے گی یعنی اس کمپنی نے ایسا کاروبار شروع کیا ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا کاروبار ہے جس میں صحت بھی ہے اور دولت بھی۔ وہ اس طرح کہ ایک بندہ کمپنی سے (ایلوویرا) جوس خریدتا ہے جس کی قیمت 2750 روپے ہے اور اپنے گھر میں یا کسی رشتہ دار کو دیتا ہے وہ اس کو استعمال کرے اور بتائے کہ اس جوس کو پینے کے کیا فائدے ہیں۔ جوس پینے والا مزید لوگوں کو اس کے فائدے بتائے اور لوگ خریدنے پر آمادہ ہوں تو وہ شخص جس نے پہلے جوس خریدا تھا کمپنی سے 2750 روپے کا جوس پھر خریدے گا اور اپنے کسی رشتہ دار کو دے گا۔ جب اس نے پہلی مرتبہ جوس خریدا تھا تو کمپنی نے اسے 50 پوائنٹس دیے تھے اور جب اس نے دوسری مرتبہ جوس خریدا تو اس کو مزید 50 پوائنٹس ملے اس طرح وہ کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر بن گیا۔ اس کا اکائنٹ کھل جاتا ہے کمپنی کے دوسرے ڈسٹری بیوٹرز کی لسٹ میں اس کانام آجاتا ہے۔ اب جوس کی آفادیت بتانا جوس اور کاروبار کی تشہیر کرنا اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اب کمپنی کہتی ہے کہ تمہارے پاس کمپنی کے پلان میں دواطراف کھلے ہیں ایک دائیں اور ایک بائیں اگر تمہاری طرف سے دو مزید گاہک آجائیں اور وہ بھی تمہاری طرح دوجوس یا دو پرفیوم یا ایک جوس اور ایک پرفیوم خریدیں تو تم ان میں سے ایک کو اپنے دائیں اور ایک اپنے بائیں کاروبار میں شامل کرلو تمہارے اطراف میں جب 200 پوائنٹس ہوجائیں گے تو کمپنی تمہیں 400 روپے کمیشن دے گی۔ اور جب تمہارے دائیں بائیں والے بھی اپنے ساتھ دودو گاہک لائیں گے تو تمہیں 400 پوائنٹس مل جائیں گے اور تمہیں 400 پوائنٹس ملنے پر کمپنی تمہیں 800 روپے کمیشن دے گی اس طرح جتنے لوگ تمہارے نیچے آتے رہیں گے کمپنی کے پلان کے مطابق تمہارے اکاؤنٹ میں پیسے جمع ہوتے رہیں گے اور وہ پیسے تم جب چاہو لے سکتے ہو۔
برائے مہربانی شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

سوال میں آپ نے کمپنی کے کاروبار کا جوطریقہ بتلایا تو مذکورہ طریقہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کا ہے اور اس نظام پر جو کمپنیاں چل رہی ہیں ان میں شرعی اعتبار سے عموماً مختلف مفاسدو خرابیاں (جھوٹ ،دھوکہ دہی اور غیر متعلقہ شرطیں وغیرہ )پائی جاتی ہیں ،نیز ان میں سامان کی خرید و فروخت بنیادی مقصد نہیں ہوتا ،بلکہ فرضی فوائد بتلا کر ان میں مبالغہ آرائی کر کے اور مختلف جھوٹ بول کر زیادہ سے زیادہ ممبر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اپنا کمیشن بنانے کا ٹارگٹ اور منصوبہ ہوتا ہے اور بعض کمپنیاں آئندہ کے موہوم فوائد بتلا کر کم قیمت کا سامان زیادہ قیمت میں فروخت کرتی ہیں ،نیز مذکورہ کمپنیوں کے اصول کے مطابق ممبر کو ان ممبران کی خریداری پر بھی معاوضہ دیا جاتا ہے جن کی ممبر سازی میں اس شخص کی کوئی محنت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کے نیچے کے ممبرز میں سے کسی کے بنائے ہوئے ممبر ہوتے ہیں ،لہذا اس طرح کی کمپنی کا ممبر بننا اور مختلف طریقوں سے کمیشن کے نام پر فوائد حاصل کرنا شرعاًجائز نہیں ،اور مذکورہ طریقے پر پیسے کمانے سے اجتناب لازم ہے۔
:كما قال الله تعاليٰ[المائدة: 90]
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
:أحكام القرآن للجصاص( 2/ 215) دار الكتب العلمية
قال الله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} . قال أبو بكر: قد انتظم هذا العموم النهي عن أكل مال الغير بالباطل وأكل مال نفسه بالباطل وذلك لأن قوله تعالى: {أموالكم} يقع على مال الغير ومال نفسه, كقوله تعالى: {ولا تقتلوا أنفسكم} قد اقتضى النهي عن قتل غيره وقتل نفسه; فكذلك قوله تعالى: {لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} نهي لكل أحد عن أكل مال نفسه ومال غيره بالباطل. وأكل مال نفسه بالباطل إنفاقه في معاصي الله; وأكل مال الغير بالباطل قد قيل فيه وجهان: أحدهما: ما قال السدي وهو أن يأكل بالربا والقمار والبخس والظلم, وقال ابن عباس والحسن: أن يأكله بغير عوض…. ونظير ما اقتضته الآية من النهي عن أكل مال الغير قوله تعالى: {ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام} [البقرة: 188] , وقول النبي صلى الله عليه وسلم: “لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة من نفسه”. وعلى أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة, وهو أن يأكله بالباطل; وقد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة۔
الصحيح للبخاري(بيوع ،باب النجش) قال النبي صلى الله عليه وسلم: «الخديعة في النار، من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد»۔
الصحيح للبخاري(كتاب البيوع،اذا بين البيعان)عن عبد الله بن الحارث، رفعه إلى حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، – أو قال: حتى يتفرقا – فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما۔
:الفتاوى الهندية (2/ 302)دار الفكر
وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس