نمبر1:۔ ایک صاحب کی ملکیت میں درجہ ذیل اشیاء موجود ہیں کیا ان صاحب کو زکوۃدے سکتے ہیں ؟
نمبر2:۔اگر کوئی شخص ان صاحب کو زکوۃ کی مد میں سے مکان دینا چاہے اور ان کی ملکیت بھی کردے لیکن ان کو یہ نہ بتلائے کہ تم اس کے مالک ہو کیا اس کی اجازت ہے ؟
سامان کی تفصیل: 1:۔زیور کی مالیت ،تقریبا 40،000،روپے کالیاتھا ۔ 2:۔اہلیہ نے کوئی قرضہ نہیں لیا ہوا۔ 3:۔بندہ نے (آدمی نے )قرضہ لیاہواہے،کرائے مکان ایڈوانس کے لئے اور مو ٹر سائیکل کے لئے بھی قرضہ لیاہواہے تقریباً50ہزارکی موٹر سائکل موجودہے ۔ 4:۔مکان کرائے کاہے ۔ 5:۔استری ہے ،واشنگ مشین ہے،فریج (1)ایک عدد برائے مشترکہ اہل خانہ استعمال۔ 6:۔برتن شوکیس موجود ہے ،سنگھار فریم موجودہے ،صوفہ بیڈ کیبل موجود ہے ۔ 7:۔ دوعددچارپائی موجودہے ،پیٹی لوہا ایک عدد بڑی موجود ہے گرمی سردی کے کپڑےاور بقیہ سامان رکھنے کے لئے ۔ 8:۔ٹی وی نہیں ہے ۔ 9:۔پانی اسٹاک کرنے کے لئے ڈرم موجود نہیں ہے ۔ 10:۔بندہ اور اہلیہ دونوں کے پاس مو بائل موجود ہے ۔ 11:۔ اخراجات کے پیش نظر سارا بجٹ ماہانہ کا کرائے اور بلو ں میں چلاجاتاہے اور بیٹا بھی وقت کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے کی عمر کوہورہاہے ۔ 12:۔نقد تقریباً 20سے 25ہزارروپے موجودہیں،اور واضح رہے کہ زیور بیوی کی ملکیت ہے نہ کہ شوہر۔
نمبر:1۔ذکرکردہ صورتِ حال میں شخصِ مذکور زکوٰۃ کا مستحق ہے ، اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
نمبر2 : ۔مستحقِ زکاۃ کومالک بناکرمکان دینے سے زکاۃ اداہوجاتی ہے اگرچہ یہ نہ بتایاجائے کہ تم اس کے مالک ہو، تاہم کاغذات میں بھی اس کی ملکیت واضح کردی جائے اور اس پردو امانت دارآدمیوں کوگواہ بھی بنالیاجائے تاکہ دینے والے کے ورثاءاس کے انتقال کے بعداس مکان کواپنے مورث کامکان سمجھتے ہوئے اس میں اپنی ملکیت کا دعویٰ نہ کرلیں اورکوئی قانونی پیچیدگی پیدانہ ہو۔
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م:1088هـ) (2/256) دارالفكر
(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حولي خرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز تمليك المال: أي المعهود إخراجه شرعا (مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى) بيان لاشتراط النية۔
الفتاوى الهندية،لجنة العلماء برئاسة نظام الدين البلخي(1/170،171) دارالفكر
(كتاب الزكاة) …أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين…وأما شرط أدائها فنية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب هكذا في الكنز… ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية۔
دررالحكام شرح غررالأحكام،محمد بن المولى (م:885ھ)(1/174)دارإحياء الكتب العربية
ولا يشترط علم الفقير بأنها زكاة على الأصح لما في البحر عن القنية والمجتبى الأصح أن من أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة، فإنها تجزئه اهـ.وكذا صحح في شرح المنظومة الإجزاء؛ لأن العبرة لنية الدافع لا لعلم المدفوع إليه إلا على قول أبي جعفر ۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،شيخي زاده عبد الرحمن بن محمد(م:1078هـ)دارإحياء التراث العربي
ولا يشترط علم الفقير بأنها زكاة على الأصح لما في البحر عن القنية والمجتبى الأصح أن من أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه لأن العبرة لنية الدافع لا لعلم المدفوع إليه إلا على قول أبي جعفر۔
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(2/ 339)سعيد
والحاصل أن النصاب قسمان: موجب للزكاة وهو النامي الخالي عن الدين. وغير موجب لها وهو غيره، فإن كان مستغرقا بالحاجة لمالكه أباح أخذهما وإلا حرمه وأوجب غيرهما من صدقة الفطر والأضحية ونفقة القريب المحرم كما في البحر وغيره. (قوله: من لا شيء له) فيحتاج إلى المسألة لقوته وما يواري بدنه ويحل له ذلك بخلاف الأول يحل صرف الزكاة لمن لا تحل له المسألة بعد كونه فقيرا فتح۔