بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

زوجین کےبیان میں اختلاف

سوال

لڑکی کا بیان: میری شادی کوچھ سال ہوگئےہیں تین سال کاایک بیٹا ہےشادی کےاس عرصہ کے دوران کئی لڑائیاں ہوئیں، لڑائی کےدوران میرےشوہرنےمجھےکہا میری طرف سےتم فارغ ہو، فارغ ہو، بس یہ دوبار کہاتھاطلاق کالفظ ٹھیک سےیادنہیں۔ پھر تقریباً ڈیڑھ سال پہلےلڑائی کےدوران اس نےکہاکہ میں اب تم سےبچہ پیداکرنانہیں چاہتا، بچہ ہونےوالاہوابھی توطلاق ہے ، میں اپنی ماں کی وجہ سےتمہیں رکھ رہاہوں، جس دن میری ماں مری اس دن طلاق ہے۔ میں نےکہاخدا کاخوف کھاؤ، رب کی پکڑمیں آجاؤگے،اتنےبرےالفاظ نہ بولو! اس نے کہااچھا جس دن میں رب کی پکڑمیں آیااس دن طلاق ہےتینوں باتیں ایک ہی وقت میں کہیں تھیں۔ میرا شوہرہفتےمیں کئی مرتبہ اوردن میں بھی کئی مرتبہ سب گھروالوں کےسامنےاوراکیلےمیں بھی یہ ہی کہتاہےکہ میں دوطلاق دےچکاہوں تیسری رہ گئی ہے میں نےدوتین مرتبہ انہیں اکیلےمیں بھی کہاکہ آپ نے ایسےکہاتھاتوانہوں نےکہاکہ میں نےمولوی صاحب سےپتہ کیاہےانہوں نےکہاکہ دوطلاقیں ہوچکی ہیں ۔
لڑکے کابیان : میں نے اس سارےقصہ میں لڑکی کوصرف یہ دوجملےموقع بموقع کہے اگر ہمارے گھرمیں اب بچہ پیدا ہوا توپھرمیں آپ کو طلاق دےدوں گا، جب میری والدہ کاجنازہ پڑاہوگاتومیں تمہیں فارغ کردوں گا۔
وضاحت
جب شوہر نے یہ الفاظ کہے “تم میری طرف سے فارغ ہو” اس کے بعد بھی میاں بیوی ایک ساتھ رہتے تھے اور نیا نکاح نہیں کیا ۔ “میری طرف سے فارغ ہو” کے الفاظ کہنے کے بعد ڈیڑھ ماہ تک لڑائی نہیں ہوئی لیکن ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ باقی جو الفاظ کہے وہ پہلے الفاظ “تم میری طرف سے فارغ ہو” کے کتنے عرصے بعد کہے گئے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہرکےبیان کے مطابق حکم شرعی یہ ہے کہ تاحال کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، ہاں اگر وہ خدانخواستہ والدہ کے انتقال یا کسی اور موقع پرطلاق دے توپھر واقع ہوگی ورنہ نہیں۔
لڑکی کے بیان کے مطابق شرعی حکم کی تفصیل یہ ہے کہ
نمبر ۱۔ جب لڑکے نے لڑائی کے دوران یہ الفاظ کہے کہ” میری طرف سے تم فارغ ہو، فارغ ہو” توان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں کانکاح ختم ہوگیاتھا اورنکاح ختم ہونے کے بعد دونوں کانئےمہرکےعوض نیانکاح کئے بغیر ساتھ رہنا جائز نہ تھا، اگرواقعۃ ً یہ صورتِ حال پیش آئی تواس سے دونوں سخت گناہ کے مرتکب ہوئے، دونوں پر لازم ہے اس پر خوب توبہ واستغفارکریں ۔
نمبر ۲۔پهر اگرلڑکے نے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ طلاق بائن واقع ہونے کے بعد تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے عدت کے اندرہی یہ الفاظ کہےکہ “میں دوطلاقیں دے چکاہوں ” تو ان الفاظ سےقضاءً ایک طلاق مزیدواقع ہوکرکل دوطلاقیں واقع ہوگئی ہیں لیکن اگر تین ماہواریاں گزرنے کے بعدیہ الفاظ کہے توان الفاظ سے مزیدکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔
نمبر ۳۔اسی طر ح شوہرنے ان مذکورہ الفاظ کے علاوہ جوتین جملے کہے ہیں کہ
نمبر ۱۔بچہ ہونے والاہوابھی توطلاق ہے۔
نمبر ۲۔میری ماں مری اس دن طلاق ہے ۔
یہ دو جملےاگرطلاقِ بائن واقع ہونے کے بعدتین ماہواریاں گزرنےکےبعد کہے ہیں تو یہ جملے منعقد ہی نہیں ہوئے(نہ ان کی وجہ سے اب تک کوئی طلاق واقع ہوئی ہے اورنہ ہی آئندہ ہوگی) لیکن اگرتین ماہواریاں گزرنے سے پہلےکہے ہیں تویہ جملے منعقدتو ہوگئےلیکن چونکہ عدت کے دوران ان دو صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں پائی گئی اس لئے تیسری طلاق تاحال واقع نہیں ہوئی، ہاں اگریہ دونوں میاں بیوی نیاعقدِ نکاح کرلیں اور اس کے بعد شوہرکی والدہ کاانتقال ہوجائے یا عورت کا بچہ پیدا ہوجائے تو پھر ایک طلاق مزید واقع ہو جائے گی اور حرمتِ مغلظہ ثابت ہو کر نکاح ختم ہوجائے گاکیونکہ دو طلاقیں وہ پہلے دے چکا ہے۔
نیزواضح رہے کہ شوہرکے ان الفاظ “جس دن میں رب کی پکڑمیں آیااس دن طلاق ہے”کہنے سے کسی وقت کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
لڑکےاورلڑکی دونوں کے بیان کے مطابق تفصیلی حکم لکھاجاچکاہے ،مفتی غیب نہیں جانتا ، وہ سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق جواب دینےکامکلف اورپابندہوتا ہے۔اوریہ بات بھی علم میں رہنی چاہیے کہ مفتی کے فتویٰ سے نہ کوئی حلال فعل حرام بن جاتا ہے اور نہ ہی حرام حلال؛ اس لئے صورتِ مسئولہ میں فریقین پرلازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کوحاضرناظر یقین کرتے ہوئےجو صورتِ حال واقعۃ ًپیش آئی ہے اس کومدنظررکھتے ہوئےشرعی احکامات پرعمل کریں اور اپنی دنیا وآخرت کوبرباد ہونے سے بچائیں۔ نیزیہ بھی واضح رہے کہ اگرلڑکااپنے بیان پرمصر ہے لیکن لڑکی نے اسی طرح الفاظ سنے ہیں جس طرح لڑکی کے بیان میں مذکور ہیں تولڑکی پرلازم ہے کہ اپنے بیان کے مطابق ماقبل میں ذکرکردہ حکم ِ شرعی پرعمل کرےتاہم جب تک طلاق کافیصلہ نہ ہوجائےیاشوہرطلاق دینے کااقرارنہ کرلے یا آئندہ طلاق نہ دے دے اس وقت تک اس عورت کے لئے کسی اورمرد سے نکاح کرنا قضاءًجائز نہیں ۔
البحر الرائق، ابن نجيم المصري(م: 970هـ) (3 / 277 )دار الكتاب الإسلامي
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه۔
الدر المختار،علاء الدين الحصكفي(م: 1088هـ)(3 / 311 )سعيد
 ولو قال إن فعلت كذا فامرأته كذا لم يقع على معتدة البائن۔
الدر المختار (3 / 344 )سعيد
(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق) (أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا۔
 رد المحتار، ابن عابدين الشامي(م: 1252هـ) (3 / 344 )سعيد
 (قوله لمنكوحته أو معتدته) فيه نشر مرتب. قال في البحر: وقدمنا آخر الكنايات عند قوله والصريح يلحق الصريح أن تعليق طلاق المعتدة فيها صحيح في جميع الصور إلا إذا كانت معتدة عن بائن وعلق بائنا كما في البدائع اعتبارا للتعليق بالتنجيز۔
 رد المحتار ابن عابدين الشامي(م: 1252هـ)(3 / 236)سعيد
ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس