بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

زندگی ہی میں اپنی جائیداد بیٹیوںمیں تقسیم کرنا اور معذور کو زیادہ دینا

سوال

ہماری تین بیٹیاں ہیں ، سب سے بڑی کی عمر بیس سال ہے ۔ دوسرے نمبر والی کی عمر 18 سال ہے۔ اور تیسری بیٹی کی عمر 12 سال ہے ۔ ہماری تیسری بیٹی ذہنی معذور ہے ۔ میرے میاں ایک کپڑے کی فیکٹری کے مالک ہیں ۔ اُن کی عمر 55 سال ہے ۔ جس گھر میں ہم رہتے ہیں وہ میرے نام ہے ۔ میرے میاں کی پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ امی ابو فوت ہو چکے ہیں ۔ میرے میاں کی ساری جائیداد ان کی ذاتی ہے وراثت میں نہیں ملی ۔ جب تک امی ابو زندہ تھے اُن کی ذمہ داری بھی میرےمیاں کے ذمہ تھی ۔ ہم آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں ۔
نمبر1۔ ہم اپنی ذہنی معذور بیٹی کو کیا دے سکتے ہیں۔ کیا اس کو باقی بیٹیوں جتنا ملے گا یا زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔
نمبر2۔ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو اپنی زندگی میں کوئی جائیداد گفٹ کر سکتے ہیں۔
نمبر3۔ کیونکہ ہمارا بیٹا نہیں ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں ان کے نام کچھ ایسا انتظام کردیں کہ اگر ہم نہ بھی رہیں تو ان کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ کیونکہ ہمارے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں جو ان کی دیکھ بھال کرسکے۔
نمبر4۔ جو گھر میرے نام ہے اس میں کون حصہ دار ہوسکتا ہے میرے بعد۔
نمبر5۔ اور ہمارے بعد جو جائیداد ہوگی اس کی تقسیم کیسے ہوگی۔

جواب

وراثت کے احکام چونکہ کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد جاری ہوتےہیں اس لئے انتقال کے وقت والدین اولاد اور بہن بھائیوں میں سے جوبھی شرعی وارث زندہ ہوں گے ان کو ان کے شرعی حصوں کے اعتبار سے وراثت ملےگی۔ البتہ اگر اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی خاطر اپنی زندگی میں انہیں کچھ مال ہبہ (گفٹ) کرنا چاہیں تو جس کو جتنا حصہ دینا چاہیں اسے مالک وقابض بنا کردے دیں اور بہتر ہے کہ سب کو برابر دیں لیکن اگر کسی کو اس کی ضرورت کی بنا پر زیادہ دے دیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
الفتاوى الهندية(4/ 391) دار الفكر
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔
تکملة فتح الملهم(٢/٧۱) دار العلوم کراچی
فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف: أن الوالد  إن وهب لأحد  أبنائه هبة أکثر من غيره اتفاقا أو بسبب علمه أو عمله أو بره بالوالدين من غير أن يقصد بذلک إضرار الآخرين، لا الجور عليهم، کان جائزا علي قول الجمهور وهو محمل أثار الشيخين وعبد الرحمن بن عوف، أما  إذا قصد  الوالد ا لإضرار أو تفضيل أحد  الأبناء علي غيره بقصد التفضيل من غیرداعية مجوزة لذلک فانه لايبيحه أ  حد۔
رد المحتار (6/ 758) دار الفكر
وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس