بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

زندگی میں بیٹے کو جائیداد/وراثت سے عاق کرنا اور بیٹے کا والد کا احتساب کرنا

سوال

نمبر ۱۔بیٹا نا فرمان ہے جس کی عمر تقریبا 33 سال ہے اور خود ایک بیٹی کا باپ ہے۔ باپ کے ساتھ بدزبانی کرتا ہے، یہاں تک کہ باپ کو گالیاں دینا اور یہ کہنا کہ میں تمہیں الٹا لٹکا دوں گا یا جان سے ماردوں گا اور باپ سے ہاتھا پائی پر اترآنا اس کا معمول ہے۔
نمبر ۲۔بڑے بھائی کو دیکھتے ہوئے چھوٹے دو  بیٹے بھی بڑے بھائی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں ۔
نمبر۳۔بڑا بیٹا نکھٹو ہے، کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا جس پر میں نے اسے دو سال کی کوششوں کے بعد گھر سے یہ کہہ کر علیحدہ کر دیا کہ جاؤ اپنے بیوی بچوں کو خود سنبھالو، میں اس بڑھاپے میں آپ کے بیوی بچوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
علمائے کرام فرما ئیں کہ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر کیا نا فرمان بیٹے کو عاق کیا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا شریعت کی روسے حل تجویز فرمایا جائے۔ نیز کیا بیٹے کو حق حاصل ہے کہ کسی بات یا کسی کام میں باپ کا احتساب کرے یا تفتیش کرے؟
اگر بیٹا باپ کو قتل کردے تو بیٹا باپ کی جائیداد سے محروم ہو جائے گا یا نہیں ؟اور اگر باپ سے بیٹے کا قتل ہو جائے تو باپ سے قصاص ہے یا نہیں ؟

جواب

اصل جواب سے پہلے بطور تمہید یہ بات سمجھ لیں کہ اولاد پر والد کا بہت بڑا حق  ہے، اللہ سبحانہ و تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والد کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی بڑی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر توحید کا حکم دینے کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ: “رب تعالیٰ کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے” ۔یہاں تک کہ اگر والد  فاسق اور کافر بھی ہو تب بھی جائز امور میں اس کی اطاعت کرنے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ نیز بیٹوں کو والد کے احتساب اور اس سے پوچھ گچھ کا حق بھی حاصل نہیں بلکہ اگر والد بالفرض کسی غیر شرعی کام میں بھی مبتلا ہو تب بھی بیٹوں کے لئے حکم یہ ہے کہ والد کو ایک مرتبہ نرمی کے ساتھ سمجھا دیں ،پھر بھی اگرنہ رکے تو اس کے لئے توبہ واستغفار اور دعا کریں ، سختی اور بے ادبی سے پیش نہ آئیں ۔ والد کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ شریعت کے اس مسئلہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ باوجودیہ کہ قتل ایک سنگین جرم اور گناہ کبیرہ ہے لیکن اگر خدانخواستہ بیٹا باپ سے قتل ہو جائے تو باپ سے قصاص نہیں لیا جاتا۔ واقعہ مذکورہ تمہید کے بعد اصل مسئلہ یہ ہے کہ صورت مسئولہ میں اگر بیٹا باپ کا سخت نا فرمان ہے اور اس کی اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں تو باپ کے لئے اس بات کی گنجائش ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے ورثاء یا غیر ورثاء میں اپنے مال کو تقسیم کر کے ، اپنی زندگی میں ہی ان کو اس کا مالک بنا دے اور اس بیٹے کو وراثت سے محروم کر دے، انشاء اللہ امید ہے کہ ایسا کرنے سے والد گناہ گار نہیں ہوگا۔ اور اس طرح کرنے سے وہ عملاً عاق ہو جائے گا۔نیز واضح رہے کہ خدانخواستہ بیٹا باپ کو قتل کر دے تو بیٹا جائیداد اور وراثت سےمحروم ہو جائے گا۔
:الدر المختار،علاء الدین الحصکفی(م:1088ھ) (4/ 78)سعيد
[فرع] في فصول العلامي: إذا رأى منكرا من والديه يأمرهما مرة، فإن قبلا فبها، وإن كرها سكت عنهما واشتغل بالدعاء والاستغفار لهما فإن الله تعالى يكفيه ما أهمه من أمرهما۔
: تفسير القرطبي،محمد بن احمد(م:671ھ)(14/ 65)دارالکتب المصریۃ
“وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ”والآية دليل على صلة الأبوين الكافرين بما أمكن من المال إن كانا فقيرين، وإلانة القول والدعاء إلى الإسلام برفق۔
: روح البيان،اسماعیل حقی بن مصطفی(م:1127ھ)(7/ 79)دارالفکر
وَصاحِبْهُما [ومصاحبت كن با ايشان ومعاشرت] فِي الدُّنْيا صحابا مَعْرُوفاً ومعاشرة جميلة يرتضيه الشرع ويقتضيه الكرم من الإنفاق وغيره وفى الحديث (حسن المصاحبة أن يطعمهما إذا جاعا وأن يكسوهما إذا عريا) فيجب على المسلم نفقة الوالدين ولو كانا كافرين وبرهما وخدمتهما وزيارتهما۔
: سنن الترمذي،محمد بن عيسى الترمذي(م:279ه) (2/12)یادگارشیخ
عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد۔
: الفتاوی الھندیۃ،لجنۃ علماء برئاسۃ نظام ا لدین افندی(6/503)بیروت
القاتل بغير حق لا يرث من المقتول شيئا عندنا سواء قتله عمدا أو خطأ، وكذلك كل قاتل وهو في معنى الخاطئ كالنائم إذا انقلب على مورثه، وكذلك إن سقط من سطح  على مورثه فقتله أو أوطأ بدابته مورثه وهو راكبها، كذا في المبسوط”۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس