کیا قرآن کریم کو پورا پڑھنا یا تھوڑا سا پڑھنا ہرمسلمان کیلئے ضروری ہے یانہیں یا جو لوگ زندگی میں قرآن کریم نہیں پڑھتے ان کا کیا حکم ہے۔ اور قرآن کے مسلمان پر کیا حقوق ہیں جن کو زندگی میں پورا کرنا ضروری ہے ورنہ اس کے بارے میں قیامت والے دن پوچھ ہوگی ۔راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ قرآن کریم ہر مسلمان پر اتنا سیکھنا فرضِ عین ہے جتنی مقدار اس کی نماز میں پڑھی جاتی ہے،اور اس سے زائد کا سیکھنا فرضِ کفایہ ہے۔البتہ روزانہ کتنی مقدار میں پڑھنا چاہئے شرعا اس کی کوئی حد مقرر نہیں،بلکہ پڑھنے والا با آسانی تجوید اور تدبر کے ساتھ جتنا زیادہ چاہے قرآن پڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح قرآن مجید کے تمام احکامات پر ایمان لانا ،اس کو درست پرھنے کی کوشش کرنا ،اسکی تلاوت کا اہتمام،اور اس کے معانی میں غور و فکر کرکے نصیحت حاصل کرنے کے بعد اس کی تعلیمات کو آگے پھیلانا یہ سب قرآن کے حقوق ہیں ۔
قال اللہ تعالیٰ
فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ(المزمل/الآیۃ ،10)
التفسير المظهري (10/ 116) رشيدية
فقال ان الله عز وجل يقول فاقرؤا ما تيسر منه ويحتمل ان يكون المراد منه فاقرؤا القران بعينه كيف ما تيسر لكم۔۔
الصحيح للبخاري (كتاب فضائل القرآن ،باب في كم يقرا القران)
وقول الله تعالى: {فاقرءوا ما تيسر منه}۔۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 57)دار احياء التراث
أورد هَذَا فِي معرض الِاسْتِدْلَال على عدم التَّحْدِيد فِي كمية الْقِرَاءَة لِأَنَّهُ عَام يَشْمَل الْجُزْء من الْقُرْآن وَأَقل مِنْهُ وَأكْثر مِنْهُ على حسب التَّيْسِير، فَلَا يَقْتَضِي جُزْءا معينا، وَلَا محدودا، وَلَا وقتا محدودا وَلَا معينا، وَمَا ورد فِيهِ من الْأَحَادِيث وَالْأَخْبَار لَا يدل على تنصيص الكمية فِي الْقدر وَالْوَقْت، فَافْهَم۔
الصحيح للبخاري(كتاب فضائل القرآن، باب في كم يقرا القران)
عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «اقرإ القرآن في شهر» قلت: إني أجد قوة حتى قال: «فاقرأه في سبع ولا تزد على ذلك»۔
عمدة القاري (20/ 60) داراحياء التراث
قَوْله: (وَلَا تزد على ذَلِك) أَي: على سبع قَالَ الْكرْمَانِي. مُقْتَضى لَا تزد أَن لَا تجوز الزِّيَادَة. قلت: لَعَلَّ ذَلِك بِالنّظرِ إِلَى الْمُخَاطب، خاطبه لضَعْفه وعجزه. أَو أَن النَّهْي لَيْسَ للتَّحْرِيم، وَكَانَ أبي بن كَعْب يختمه فِي ثَمَان. وَكَانَ الْأسود يختمه فِي سِتّ، وعلقمة فِي خمس، وَرُوِيَ عَن معَاذ بن جبل، وَكَانَت طَائِفَة تقْرَأ الْقُرْآن كُله فِي لَيْلَة أَو رَكْعَة. وَرُوِيَ ذَلِك عَن عُثْمَان بن عَفَّان وَتَمِيم الدَّارِيّ. وَكَانَ سليم يختك الْقُرْآن فِي لَيْلَة ثَلَاث مَرَّات، ذكر ذَلِك أَبُو عبيد. وَقَالَ صَاحب التَّوْضِيح: أَكثر مَا بلغنَا، قِرَاءَة ثَمَان ختمات فِي الْيَوْم وَاللَّيْلَة، وَقَالَ السّلمِيّ: سَمِعت الشَّيْخ أَبَا عُثْمَان المغربي يَقُول: ابْن الْكَاتِب يخْتم بِالنَّهَارِ أَربع ختمات وبالليل أَربع ختمات۔
الفتاوی التاتاخانیة (1/ 366) قدیمی
اعلم ان حفظ القرآن مقدار ما یجوز به الصلوٰۃ فرض عین علی المسلمین ، وحفظ فاتحة الکتاب وسورۃ واجب علی کل مسلم ، وحفظ جمیع القرآن علی سبیل الکفایة علی الامة۔