بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

راس الما ل عروض واثاثہ جات کی شکل میں ہو تو شرکت کا طریقہ

سوال

ہم دو لوگ شرکت پر کا روبا ر کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہما را راس الما ل عروض واثاثہ جات کی شکل میں ہے تو شرکت کاطریقہ کا ر کیا ہوگا ؟

جواب

اصولی حکم تویہی ہے کہ عقدِ شرکت نقدکرنسی میں کیا جائے، عروض واثاثہ جات میں عقدِشرکت منعقد نہیں ہوتا البتہ اگر دوآدمی اپنے اثاثہ جات میں شرکت منعقد کرنا چاہتے ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک اپنے آدھے سامان کے بدلےدوسرے کا آدھا سامان خرید لے تواس طرح ہر ایک دوسرے کے سامان میں نصف کا مالک ہو جائےگااور سارے مال ميں دونوں مشتركہ طور پر مالک بن جائیں گے ۔پھر وہ آپس میں طے کر لیں کہ ہم اس مال کو کاروبار میں لگاتے ہیں نیز یہ کہ ہر ایک کے لئے منافع میں سے فیصدیانصف ، ثلث ،ربع وغیرہ کے اعتبار سے نفع بھی طے کرلیں تو ایسا کرنا درست ہوگا۔
واضح رہے کہ شرکت میں نقصان ہوجانے کی صورت میں ہرشریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان کا ذمہ دار ہوگا، نیزیہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ عقدِ شرکت کے وقت اگر کسی شریک کے بارے میں یہ طے ہو کہ وہ کام نہیں کرے گاتو اس کے لئے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر نہ کیاجائے۔
تبيين الحقائق،فخر الدين عثمان بن علي(م:743ھ)(3/317)المطبعة الكبرى الأميرية:
 قال رحمه الله (ولوباع كل نصف عرضه بنصف عرض الأخر وعقد الشركة  صح) أي لو باع كل واحد منهما نصف ماله من العروض بنصف مال الآخر وعقدا عقد الشركة بعد البيع جازت الشركة وصارت شركة عقد وهذا لأنه بالبيع صار شركة ملك حتى لا يجوز لكل واحد منهما أن يتصرف في نصيب الآخر ثم بالعقد بعد ذلك صار شركة عقد فيجوز لكل واحد منهما أن يتصرف في نصيب صاحبه وهذه حيلة لمن أراد الشركة في العروض لأنه بذلك يصير نصف مال كل واحد منهما مضمونا على صاحبه بالثمن فيكون الربح الحاصل من المالين ربح ما يضمن فيجوز.۔
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين،الشامي(م:1252ھ)(4 / 312)دار الفكر:
وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اه ما في النهر. وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس