الدر المختار مع الشامي (1/ 591+590) رشيدية:
والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك. . .
إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه.
قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه
حاشية الطحطاوي (ص: 506) دار الكتب العلمية:
“ويشترط لصحتها” أي صلاة الجمعة “ستة أشياء” الأول “المصر أو فناؤه” سواء مصلى العيد وغيره لأنه بمنزلة المصر في حق حوائج أهله وتصح إقامة الجمعة في مواضع كثيرة بالمصر وفنائه وهو قول أبي حنيفة ومحمد في الأصح
بدائع الصنائع (1/ 583) علمية:
أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها.
الفتاوى الهندية (1/ 145) دار الكتب العلمية:
ومن لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة.
امداد الفتاوی (3/152) نعمانیہ:
دیہاتوں میں احناف کے نزدیک جمعہ کا صحیح نہ ہونا ظاہر و باہر ہے اور جو لوگ مذہبِ شافعیؒ کے پیشِ نظر پڑھتے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ وہ لوگ نماز کے وہ تمام فرائض جو امام شافعی ؒکے نزدیک ثابت ہیں بجا نہیں لاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کا جمعہ نہ احناف کے نزدیک درست ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ شافعیوں کے نزدیک درست ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا نام تلفیق ہے جسے فقہاء باطل کہتے ہیں۔
فتاوی دارالعلوم دیو بند (5/87) حقانیہ:
حنفیوں کو اس صورت میں امام شافعیؒ کے مذہب پر عمل کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ حنفیہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ چھوٹے گاؤں میں نماز ؛ جمعہ و عیدین کی جائز نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ گاؤں میں جمعہ و عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
امدادالمفتیین (4/305) ادارۃ المعارِف کراچی:
( دو ،ڈھائی ہزار کی آبادی والے گاؤں میں جمعہ قائم کرنا)
اگر اس گاؤں کی آبادی ، مردم شماری یعنی کُل مرد و عورت ، مسلم ، کافر کی دو، ڈھائی ہزار ہو تو جمعہ اس گاؤں میں قائم کرنا درست ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ البتہ چھوٹے گاؤں جن کی آبادی اس سے کم ہو اور بازار وغیرہ وہاں نہ ہو، ان میں جمعہ درست نہیں، وہاں ظہر با جماعت پڑھنی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ