بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

دیہات میں جمعہ قائم کرنے سے ظہر کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی اور جمعہ روکنے کی وجہ سے انتشار ختم کرنے کا طریقہ

سوال

صورتِ مسئولہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک جگہ جامع مسجد کی تعمیر آخری مراحل میں ہے لیکن اس جگہ شرائطِ جمعہ حنفی مسلک کے مطابق پوری نہیں ہوتیں لیکن قوی امکان ہے کہ اگر ہم نے حنفی مسلک کے مطابق مسئلے کی وضاحت کی تو فتنے کا ایک نیا باب کھل جائے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ مسجد اہلِ بدعت کی تحویل میں چلی جائے گی یا پھر غیر مقلدین کا تسلط ہو جائے گا ۔ وضاحت فرما دیں کہ اس صورت میں ہمارے لیے فقہاءِ اربعہ میں سے دوسرے کسی امام کی رائے اپناتے ہوئے اس فتنے سے براءت کی کو ئی صورت اختیار کرنا جائزہو گا؟ جبکہ ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیر و کار ہیں۔

جواب

احناف کے نزدیک اقامت ِجمعہ کے لیے ضروری ہے کہ شہر ،قصبہ یا بڑا گاؤں ہو مثلاً جس کی آبادی کم از کم دو، ڈھائی ہزار ہو اور ضروریاتِ زندگی کی اکثر اشیاء وہاں سے مل جاتی ہوں ،تو وہاں پر نمازِ جمعہ پڑھنا فرض ہے ۔ لہذا ایسی جگہ جو قریہ صغیرہ ہو اور جہاں پر جمعے کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں وہاں پر جمعہ پڑھنا نا جائز ہے۔ اور ایسے دیہات کے باشندوں پر جمعہ شرعاً فرض نہیں ہے بلکہ ظہر کی نماز فرض ہے ، اور جمعے کی نماز پڑھنے سے اس کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی ۔ لہذا وہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ فوراً نمازِ جمعہ ترک کر کے نمازِظہر شروع کر دیں، اور اس مسئلے میں ان کو( اگر وہ حنفی المسلک ہیں تو) کسی دوسرے امام کے مسلک پر عمل کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، الّا یہ کہ ایسی جگہ پر سلطان یا قاضی کے حکم پر نمازِ جمعہ شروع کیا جائے۔ البتہ فتنے اور انتشار کے سدِّباب کے لیے وہاں کے مستند علماء، با اختیار افیسر، بزرگوں اور دانشوروں کو چاہیے کہ باہمی مشورے ، حکمت و بصیرت سے متّفِقّہ فیصلہ کر کے لوگوں کو پیار اور نرمی سے پہلے مسئلے سے آگاہ کریں۔
الدر المختار مع الشامي (1/ 591+590) رشيدية:
والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك. . .
إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه.
قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه
حاشية الطحطاوي (ص: 506) دار الكتب العلمية:
“ويشترط لصحتها” أي صلاة الجمعة “ستة أشياء” الأول “المصر أو فناؤه” سواء مصلى العيد وغيره لأنه بمنزلة المصر في حق حوائج أهله وتصح إقامة الجمعة في مواضع كثيرة بالمصر وفنائه وهو قول أبي حنيفة ومحمد في الأصح
بدائع الصنائع (1/ 583) علمية:
أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها.
الفتاوى الهندية (1/ 145) دار الكتب العلمية:
ومن لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة.
امداد الفتاوی (3/152) نعمانیہ:

دیہاتوں میں احناف کے نزدیک جمعہ کا صحیح نہ ہونا ظاہر و باہر ہے  اور جو لوگ مذہبِ شافعیؒ کے پیشِ نظر پڑھتے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ وہ لوگ نماز کے وہ تمام فرائض جو امام شافعی ؒکے نزدیک ثابت ہیں بجا نہیں لاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو ان کا جمعہ نہ احناف کے نزدیک درست ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ شافعیوں کے نزدیک درست ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کا نام تلفیق ہے جسے فقہاء باطل کہتے ہیں۔

فتاوی دارالعلوم دیو بند (5/87) حقانیہ:

حنفیوں کو اس صورت میں امام شافعیؒ کے مذہب پر عمل کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ حنفیہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ چھوٹے گاؤں میں نماز ؛ جمعہ و عیدین کی جائز نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔  گاؤں میں جمعہ و عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔

امدادالمفتیین (4/305) ادارۃ المعارِف کراچی:
( دو ،ڈھائی ہزار کی آبادی والے گاؤں میں جمعہ قائم کرنا)

اگر اس گاؤں کی آبادی ، مردم شماری یعنی کُل مرد و عورت ، مسلم ، کافر کی دو، ڈھائی  ہزار ہو تو  جمعہ اس گاؤں میں قائم کرنا درست ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔  البتہ چھوٹے   گاؤں جن کی آبادی  اس سے کم ہو اور بازار وغیرہ وہاں نہ ہو، ان میں جمعہ درست نہیں، وہاں ظہر با جماعت پڑھنی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس