دوسال پہلے ہم میاں بیوی کا جھگڑاہوا،اس لڑائی میں میرے سسرال والے مجھ سے اپنی بیٹی کی طلاق مانگ رہے تھے ، اور وہ میری بیوی کو زبردستی لے گئے، وہ جانا نہیں چاہ رہی تھی، پھراس دوران میری ایک بچی پیدا ہوئی تو میرے سسرال والوں نے ایک خالی اسٹام پردوگواہوں کے سامنے مجھ سے اس بات کے دستخط لئے کہ اگربچی کو کچھ ہواتو آپ کیس نہیں کروگے،لیکن انہوں نے خیانت کرتے ہوئے اس پر میری جانب سے جعلی طلاق بنادی ، اس کے بعد میرے والد نے مجھ سے کہاکہ ان کے پاس تو طلاق چلی گئی ہےلہٰذا تم بھی اپنی زبان سے طلاق دیدو،اپنے گھروالوں کے دباؤ میں آکر میں نے ایک طلاق دیدی ،طلاق دیتے وقت اسٹام کے دوگواہوں میں سے ایک گواہ موجود تھادوسرانہیں تھا،میں نے اسے فون کرکے بتایاکہ میں نے ایک طلاق دیدی ہے،اس نے آکرمجھے کہاکہ مجھے شور کی وجہ سے پتہ نہیں چلا ،دوبارہ کہوتومیں نےدوبارہ کہنے سے انکارکردیا۔
اب میرے سسرال والوں نے یہ کہاکہ طلاق ہوچکی ہے لہٰذا انہوں نے میری بیوی کی آگے شادی کردی۔ اب معلوم یہ کرناہے کہ کیاایک طلاق دینے سے وہ میری زندگی سے چلی گئی اور اس پر طلاق واقع ہوگئی ؟ حالانکہ مذکورہ الفاظ کہنے کےتقریباًبیس دن بعد میں اپنے دوآدمیوں کے ساتھ ایک مفتی صاحب کے پاس گیااوران کے سامنے میں نے رجوع کیا، مفتی صاحب نے ان دونوں آدمیوں سے کہاکہ لڑکی والوں کو پیغام دیدو کہ اس نے میرے سامنے رجوع کیاہے لہٰذا اس لڑکی کاآگے نکاح حرام ہے،طلاق نہیں ہوئی۔
مفتی صاحب!لیکن ہوا یوں کہ رجوع کے دوگواہوں میں سے ہی ایک نے میری بیوی کی شادی دوسرے آدمی سے کردی ،اور اب ان کے ہاں بچہ بھی پیداہوگیا،گزارش یہ ہے کہ میں اب اسے رکھنا نہیں چاہتا،صرف میرا مقصد یہ ہے کہ اگر ان کا یہ فعل درست ہے تو ٹھیک اور اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تومیں اب اسے طلاق دے کرفارغ کرناچاہتاہوں تاکہ وہ دوبارہ شریعت کے مطابق آپس میں نکاح کرلیں اور اللہ کے عذاب سے بچ جائیں ۔
سوال میں ذکرکردہ تفصیل اگر واقع کے مطابق ہےاورواقعۃ ً آپ نے اپنی بیوی کو تحریری طورپریا اسٹام کی صورت میں کوئی طلاق نہیں دی بلکہ صرف زبانی طورپرایک طلاق دی ہےاور دوسرے گواہ کوفون کرتے ہوئے جو طلاق کے الفاظ بولے اس سے آپ کی نیت پہلی طلاق کی خبردینے کی تھی ،نئی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو آپ کی بیوی پر صرف ایک طلاقِ رجعی واقع ہوئی ،لہٰذا سوال میں مذکور بیان کے مطابق جب آپ نے طلاق دینے کےبعد عدت کے اندررجوع بھی کرلیاتو ایسی صورت میں آپ کا نکاح بدستور باقی ہے ، اس کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہے، لڑکی اور دوسرے شوہرپرلازم ہے کہ وہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں ،اور اپنے گناہ پر توبہ واستغفار کریں ۔ جب پہلاشوہر دوبارہ طلاق دیدے تو پھرعدت گزرنے کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکتے ہیں۔
ملحوظہ: مذکورہ جواب سائل کی جانب سے موصول شدہ سوال کی روشنی میں دیاگیاہے،لہٰذا اگرواقعی صورتِ حال اس سے مختلف ہوتو اس کی ذمہ داری سائل پر عائد ہوتی ہے مفتی پرنہیں،اور اگرلڑکی کے علم کے مطابق پیش آمدہ صورت سوال میں ذکرکردہ صورت سے مختلف ہوتو وہ اس کے مطابق راہنمائی حاصل کرسکتی ہے۔
قال الله تبارک وتعالیٰ:(سورة البقرة:235)
(وَلَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَاعَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِأَوْأَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لَاتُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا وَلَاتَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُواأَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَافِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُواأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌحَلِيمٌ)
تفسيرابن كثير،أبوالفداءإسماعيل بن عمر(م: 774هـ)(1/574)دارالكتاب العربي
وقوله ولاتعزمواعقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله يعني ولاتعقدواالعقدة بالنكاح حتى تنقضي العدة.قال ابن عباس ومجاهدوالشعبي وقتادة والربيع بن أنس وأبومالك وزيدبن أسلم ومقاتل بن حيان والزهري وعطاء الخراساني والسدي والثوري والضحاك:حتى يبلغ الكتاب أجله يعني ولاتعقدواالعقد بالنكاح حتى تنقضي العدة،وقدأجمع العلماءعلى أنه لايصح العقدفي العدة
الفتاوى الهندية (1/348)دارالفکر
(وأماحكمه)فوقوع الفرقة بانقضاء العدة في الرجعي وبدونه في البائن،فقط