بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

دودھ کے کاروبار میں شرکت کا طریقہ

سوال

میں ایک دکاندار کے ساتھ دودھ کے کام میں شرکت کرنا چاہتا ہوں ۔ذیل میں اس کام کے اندر شرکت سے متعلق کچھ صورتیں ہیں جن کے بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ ان میں سے کون سی صورت کے مطابق شرکت کی جائے کہ ہماری شرکت درست ہو۔
پہلی صورت یہ ہے کہ :جس شخص کی دکان ہے اس نے مجھے کہا کہ آپ مجھے دولاکھ روپے دیں میں جس باڑے سے دودھ لاتا ہوں میں یہ پیسے وہاں دوں گا ۔جس کی وجہ سے مجھے روز ساٹھ کلو اضافی دودھ ملے گا اور اس ساٹھ کلو میں سے میں آپ کو نفع اس طرح دوں گا کہ ہر کلو پر آپ کو تین روپے ملیں گے ۔ کیا اس طریقہ پر کاروبار کرنا جائز ہے ؟
دوسری صورت یہ کہ:کیا اس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اس دکاندار کو باڑے سے ساٹھ کلو دودھ خریدنے کا وکیل بنا دوں (جسکی قیمت دو لاکھ سیکیورٹی کے علاوہ الگ سے ادا کروں ) اور پھر اسی دکان کے کسی ملازم کو اس دکاندار سے دودھ قبضہ کرنے کا وکیل بنا لو ں اور میرا وکیل بالقبض طے شدہ نفع رکھ کر یہی دودھ اسی دکاندار کو فروخت کر دے نیز اس دوران میرے لیے دودھ خریدنے سے لے کر دکاندار کو بیچنے تک جو نقصان ہوگا اس کا میں خود ذمہ دار ہو ں گا دونوں وکیل فقط امین ہو ں گے ۔ اس صورت کا کیا حکم ہے؟
تیسری صورت یہ ہے کہ : میں اس دوکاندار کے ساتھ اس طرح شریک ہوجاؤں کہ روز چار من دودھ میرے پیسوں کا آئے اور چار من اس کے پیسوں کا اور نفع پچیس فیصد میرا اور پچھتر فیصد اس کا ہو ،کیونکہ محنت دکان سب اس کا ہے ،تو کیا یہ صورت جائز ہے اور یہ بھی واضح کریں کہ ہمیں ان تمام صورتوں میں کن باتوں کا خاص طور پر لحاظ رکھنا چاہیے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ صورتوں میں سے پہلی صورت شرعاً درست نہیں۔
دوسری صورت جائز ہے بشر طیکہ سوال میں ذکر کردہ تمام امور کا اہتمام کیا جائے ۔
تیسری صورت بھی جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ مکمل حساب کر کے نفع نکالا جائے ،فقط اندازے سے نفع نکال کر تقسیم نہ کیا جائے ۔
:فتح القدير (6/ 183) دار الفكر
قوله (ولا تجوز الشركة إذا شرط لأحد دراهم مسماة من الربح) قال ابن المنذر: لا خلاف في هذا لأحد من أهل العلم. ووجهه ما ذكره المصنف بقوله لأنه شرط يوجب انقطاع الشركة فعساه لا يخرج إلا قدر المسمى فيكون اشتراط جميع الربح لأحدهما على ذلك التقدير، واشتراطه لأحدهما يخرج العقد عن الشركة إلى قرض أو بضاعة على ما تقدم. وقوله (ونظيره في المزارعة) يعني إذا شرطا لأحدهما قفزانا مسماة بطلت لأنه عسى أن لا تخرج الأرض غيرها۔
:الفقه الإسلامي وأدلته  (4/ 2996) دار الفكر
 وعبارة الحنفية في تعريفها(الوكالة): هي إقامة الشخص غيره مقام نفسه في تصرف جائز معلوم. أو هي: تفويض التصرف والحفظ إلى الوكيل.۔۔ والناس قديماً وحديثاً بحاجة يومية إلى الوكالة في كثير من أحوالهم وأمورهم، إما أنفة أو عدم لياقة بمباشرة الشيء بالذات كتوكيل الأمير أو الوزير، وإما عجزاً عن الأمر كتوكيل المحامين في الخصومات، والخبراء بالبيع والشراء في التجارات۔
:بدائع الصنائع (6/ 62) دار الكتب العلمية
اذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس