مسئلہ یہ ہے کہ بنده نے كئی جگہ علماء سے سنا وہ دعا کے اختتام پر یہ کلمات کہتے ہیں :یا اللہ مرتے وقت زبان پر کلمہ جاری فرما “لا الہ الااللہ”اور باقی لوگ جو دعا میں ہوتے ہیں وہ بھی یہی الفاظ کہتے ہیں اور دعا ختم ،بندہ نے اس مسئلے کو کتابوں میں تلاش کیامگر وہاں تعارض پایا “مسائل امامت”(مولانا رفعت قاسمی صاحب) ص 204:میں حضرت فرماتے ہیں کہ یہ بدعت ہے ،حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ۔ جبکہ فتاویٰ دینیہ میں مفتی اسماعیل صاحب ص:127 میں فرماتے ہیں ایسا کرنا صحیح ہے بدعت نہیں ۔
مذکورہ مسئلے کی وضاحت فرما کر تعارض کی تطبیق بھی فرما دیں ۔
دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ اول آخر اللہ کی حمد و ثنا اور حضور ﷺ پر درود شریف پڑھا جائے،اور واضح رہے کہ دعا کے آخر میں کلمہ پڑھنا ثابت نہیں اور اس کو لازم سمجھ کر ہر نماز کے بعد پڑھنا بدعت اور واجب الترک ہے یہی بات “مسائل امامت ” میں مولانا رفعت قاسمی صاحب نے فرمائی جس کی تائید” احسن الفتاوی ” اور “فتاوی قاسمیہ” سے بھی ہوتی ہے ۔البتہ اگر کبھی کبھار دعا کے آخر میں کلمہ یا “بحق لاالہ الاللہ ” یا اس جیسے الفاظ کہہ دیے اور اس کو لازم بھی نہ سمجھا تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے جیسا کہ ‘فتاوی دینیہ” میں مولانا اسماعیل صاحب نے فرمایا ہے۔
:قال الله تعالي
دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (يونس:10)
:تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن (12/ 146)
وهي تحية المؤمنين في الدنيا {وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ}؛ أي: وخاتمة دعائهم وثنائهم الذي هو التسبيح {أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}؛ أي: أن يقولوا الحمد لله رب العالمين؛ أي: خاتمة تسبيحهم في كل مجلس، أن يقولوا: الحمد لله رب العالمين لا أن معناه: انقطاعه؛ أي: الحمد، فإن أقوال أهل الجنة وأحوالها لا آخر لها، اهـ “كرخي”
:سنن الترمذي (ابواب الدعوات،باب:65)
عن فضالة بن عبيد، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلى فقال: اللهم اغفر لي وارحمني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجلت أيها المصلي، إذا صليت فقعدت فاحمد الله بما هو أهله، وصل علي ثم ادعه. قال: ثم صلى رجل آخر بعد ذلك فحمد الله وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: أيها المصلي ادع تجب ۔سنن الترمذي(ابواب الوتر ، باب ما جاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم) عن عمر بن الخطاب، قال: إن الدعاء موقوف بين السماء والأرض لا يصعد منه شيء، حتى تصلي على نبيك صلى الله عليه وسلم
:الموسوعة الفقهية (20/ 264) الكويتية
أَنْ يَفْتَتِحَ الدُّعَاءَ بِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَل وَبِالصَّلاَةِ عَلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْحَمْدِ لِلَّهِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، وَيَخْتِمَهُ بِذَلِكَ كُلِّهِ أَيْضًا، لِمَا وَرَدَ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَال: سَمِعَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً يَدْعُو فِي صَلاَتِهِ لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ وَلَمْ يُصَل عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجِل هَذَا ثُمَّ دَعَاهُ، فَقَال لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللَّهِ وَالثَّنَاءِ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَدْعُو بِمَا شَاءَ. (3) وَدَلِيل خَتْمِهِ بِذَلِكَ قَوْل اللَّهِ تَعَالَى: {وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} (1) واَمَّا الصَّلاَةُ عَلَى النَّبِيِّ فَلِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَجْعَلُونِي كَقَدَحِ الرَّاكِبِ يَجْعَل مَاءَهُ فِي قَدَحِهِ، فَإِنِ احْتَاجَ إِلَيْهِ شَرِبَهُ، وَإِلاَّ صَبَّهُ، اجْعَلُونِي فِي أَوَّل كَلاَمِكُمْ وَأَوْسَطِهِ وَآخِرِهِ۔