کیا فرماتے ہیں علمائے کرام زکوۃ کے اس مسئلہ میں؟
ایک شخص کی دس ایکڑ زرعی زمین ہے جس کی مارکیٹ ویلیو دس کروڑ ہے اس کی تقسیم درج ذیل ہے
• دوایکڑ پر رہائشی عمارت ہے جہاں ان کے اہل و عیال سکونت پذیر ہیں۔ • تین ایکڑ ٹھیکے پر کاشتکاروں کو دی ہے۔ سالانہ ٹھیکہ تین لاکھ روپے ہے۔ • دو ایکڑ خود کاشت کی نہری پانی کے ساتھ۔ اور سالانہ آمدنی دولاکھ روپے ہے۔ • تین ایکڑ بنا کاشت اور ٹھیکہ خالی پڑی ہے۔ کوئی مصرف نہیں۔
ساری زمین سے متعلق موصوف کا کوئی ارادہ یا نیت پختہ نہیں کہ مستقبل میں اسکا کیا کرنا ہے؟
• ساری زرعی زمین خود کاشت کرنی ہے یا ٹھیکے پر دینی ہے؟ • رہائش کے علاوہ باقی زمین پر کوئی ہاؤسنگ سکیم بنانی ہے؟ • کوئی فیکٹری لگانی ہے یا ڈیری فارم بنانا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا دو ایکڑ رہائشی عمارت نکالنے کے بعد آٹھ ایکڑ زرعی زمین پر زکات
• زمین کی مارکیٹ ویلیو آٹھ کروڑ پر زکات ہوگی؟ • ٹھیکے کی رقم تین لاکھ پر ہوگی؟ • خود کا شتہ زمین کی دولاکھ آمدنی منفی بیس ہزار خرچہ۔ ایک لاکھ اسی ہزار پر زکات یا عشر؟ • تین ایکڑ خالی زمین کی مارکیٹ مالیت تین لاکھ پر بھی لگے گی؟
التماس ہے کہ مستند فتوی عنایت فرمائیں تاکہ موصوف کو شریعت کے مطابق زکات ادا کرکے ذہنی سکون حاصل کرسکے۔
صورت مسؤلہ میں زمینوں کی مالیت پر زکوۃ نہیں، البتہ ٹھیکے والی زمین سے حاصل ہونے والی رقم میں سے جتنی رقم تاریخ ِ زکوۃ میں اس کی ملکیت میں موجود ہو اس پر زکوۃ لازم ہوگی۔ نیز خود کاشتہ زمین سے حاصل شدہ کل پیداوار پر ( بغیر خرچہ نکالے) عشر لازم ہوگا۔ اور اس پیداوار کو مارکیٹ میں فروخت کرکے جو رقم حاصل ہوگی اگر زکوۃ کی تاریخ آنے تک وہ رقم موجود ہو تو دیگر اموال کے ساتھ اس رقم پر بھی زکوۃ واجب ہوگی۔
:الدر المختار (2/ 262)دار الفكر
فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم۔
:الفتاوى الهندية (1/ 191)دار الفكر
وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار۔
:بدائع الصنائع (2/ 16)دار الكتب العلمية
أموال الزكاة أنواع ثلاثة أحدها: الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة، والثاني: أموال التجارة وهي العروض المعدة للتجارة۔
:الدر المختار (2/ 326)دارالفکر
(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل۔۔۔و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير۔۔۔ (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر۔
:الفتاوى الهندية (1/ 187) دار الفكر
ولا تحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشرا أو نصفا كذا في البحر الرائق۔
:الفتاوى الهندية (1/ 175) دار الفكر
وأما ثمن الطعام المعشور، وثمن العبد الذي أدى صدقة فطره فإنه يضم إجماعا۔
:بدائع الصنائع (2/ 21) دار الكتب العلمية
ا صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا۔