بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

خط اور رسم میں فرق اور اس کا حکم

سوال

قرآن مجیدکورسم عثمانی کےعلاوہ کسی اوررسم الخط میں لکھنایاتحریرات الناس کورسم عثمانی کےطرزپرلکھنا جائزہے؟

جواب

پہلے تمہید اً یہ بات سمجھ لیں کہ
یہاں پر تین چیزیں ہیں:1۔خط،2۔رسم الخط/رسمِ عثمانی،3۔خطوط کےاندازِ بناوٹ(ڈیزائن)۔ تینوں کی تعریفات ،ان کے درمیان فرق اور حکم کو واضح کیا جاتا ہے ۔”علوم القرآن “کی اصطلاح میں خط اور رسم الخط میں فرق ہے۔(اگرچہ یہ دونوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال بھی ہوتے ہیں ):
نمبر ۱۔ خط کے معنی ہیں:” کسی کلمے کو اس کے ان حروف ہجاء سے لکھنا ،جو اس پر وقف اور ابتداءکے وقت پائے جاتے ہیں” ۔پھر اس کی بناوٹ کے مختلف اسلوب ہیں ،جن کو اس کی اقسام میں شمارکیاجاتا ہے اوروہ کئی ہیں ، مثلاً:خطِ کوفی ،نسخ، دیوانی،نستعلیق ،ثلث وغیرہ ۔ اسی کی ایک قسم وہ “خط” ہےجس کو انگریز ی میں(فونٹ)کہا جاتا ہے، اس سے مراد الفاظ کی بناوٹ اور صورت و شکل ہے ۔واضح رہے کہ ہمارے دیا ر میں قرآن پاک کے مروجہ نسخے”خط نسخ” میں ہیں اور اب اسی میں ہی لکھے جاتے ہیں ۔
نمبر ۲۔ رسم الخط کے معنی ہیں :”قرآنی کلمات کو حذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا ضروری ہے،جس پر دور عثمانی میں حضرات صحابہ کرام رضى الله عنہم کا اجماع ہوچکا ہے اور وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سےتواتراً منقول ہے”۔نیزرسم کا تعلق الفاظ کی بناوٹ وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ املاء (سپیلنگ)سے ہے۔یعنی لفظ کیسے لکھا جائے،خواہ کسی لفظ کا تلفظ اپنے مروج املا سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو ،لیکن اس کا جو املا متعین ہوگیا ہے، اسے اسی طرح لکھیں گے۔
خط اور رسم کےفرق کو ذہن نشین کرنے کے لئے ذیل میں دی گئی مثالوں پرغور کریں
العٰلمینَ،الرحمٰن،الصٰلحٰت،هؤلآء،من نبایٔ المرسلین،الصلوةٰ،الحبلی۔مذکورہ کلمات کا موجودہ خط رسم عثمانی کے موافق ہے ،کیونکہ ان میں “الف”محذ وف الرسم ہے ،لکھا ہو ا نہیں ہے، “ہٰؤلآء”میں” واو” اور”من نبایٔ” میں”یا” لکھی ہوئی ہے ۔لہٰذا اس میں خط اور رسم الخط دونوں موجود ہیں،لیکن اگر ان ہی کلمات کواس طرح لکھیں:”اَلعالمین،الرحمان،الصالحات،هآأُلاء،من نباءِالمرسلین”تو اب ان میں خط (کتابت) تلفظ کے موافق ہے، مگر رسم عثمانی کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ ان میں الف مرسوم (لکھا ہوا ) ہے ،لہٰذایہ کہا جائے گا کہ یہاں خط تو ہے مگر رسم الخط نہیں ہے۔(ماخوذ:الخظ العثمانی فی الرسم العثمانی،ص4۔ مولفہ :قاری رحیم بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ )یہاں صرف “الف،واو”اور “یا” کی مثالیں دی گئی ہیں ،ورنہ اس کے علاوہ حروف کی مثالوں سے قرآ ن مجید بھرا ہو ا ہے۔لیکن اگر ان کو خط کوفی یا نستعلیق میں لکھیں تو اس کے لکھنے کا یہ اصول برقرار رہے گا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ قرآن مجید کا یہ رسم الخط توقیفی اورسماعی ہے، یعنی رسول اللہ ﷺسے مسموع اور آپﷺہی کے اَمرو املاء سے ثابت ومنقول ہے ۔چنانچہ اس فن کے ماہرین کا قول ہے :”خطان لایقاسان،خط القوافی وخط القرآن”اورعلامہ برہان الدین ابو اسحٰق ابراہیم بن عمر الجعبری (۷۳۲ھ) لکھتے ہیں:”رسم المصحف توقیفاً هومذهب الأربعة”(شرح العقیلۃ )
حکم :عہد صحابہ و تابعین سے لےکر آج تک ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے کہ قرآن کو “رسم ِعثمانی” کے مطابق لکھنا ضروری ہے، اس کی اتباع و التزام اور موافقت واجب ہے اور مخالفت ناجائز اور حرام ہے۔( جواہر الفقہ 2/80)نیز کتابتِ قرآن کے لئے عربی رسم خط کی پابندی بھی ضروری ہے ، چنانچہ کسی غیر عربی خط میں(اگرچہ رسمِ عثمانی کی رعایت بھی ہو سکتی ہو ، مثلاً فارسی ، اردو نستعلیق وغیرہ، اس میں بھی) راجح قول کے مطابق پورا قرآن کریم لکھنا جائز نہیں ہے ۔ البتہ ایک دو آیات لکھنےکی گنجائش ہے ۔ (امدا لاحکام 1/240)
خلاصۃً اس سے چند باتیں واضح ہو ئیں
نمبر۱۔ قرآن مجید کے لئےسماعی رسم بالاجماع خاص ہے ۔ نمبر ۲۔ مکمل قرآن مجید کی کتابت کے لئےعربی خط (فاؤنٹ)مخصوص ہے جس کی پابندی ضروری ہے ۔غیر عربی خط میں تین آیت قرآنیہ سے زیادہ لکھنا جائز نہیں ہے ۔واضح رہے کہ خط نسخ ایک عام عربی خط ہےیہ قرآن کے ساتھ خاص اور لازم نہیں ہے ۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآنی عربی خط (فاونٹ ) کوتحریرات الناس میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ املاء کا ایک مخصوص طریقہ جس کے کو ئی قواعد نہیں ہیں،بلکہ وہ غیر قیاسی اور سماعی طریقہ جسے رسم عثمانی کہا جاتا ہے ۔یہ قرآن حکیم کے ساتھ وجوبی درجہ میں خاص ہے ۔یہی وجہ ہے کہ متاخرین علماء ، تسمیہ ( بسم اللہ آہ )کو قرآن کی آیت اس وجہ سے بھی گِردانتے ہیں کہ وہ خط قرآنی اور رسم عثمانی کے مطابق لکھی گئی ہے ۔لہٰذا قرآن حکیم کواس رسم کے علاوہ کسی دوسرے رسم میں لکھنا جائز نہیں ہے اور دوسری تحریروں کو قرآنی رسم میں لکھنے کے بارے میں کہیں صراحۃ ً جزئیہ نہیں ملا،قواعد کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی رسم کو عوامی تحریرات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ قرآن کا خاصہ اور اس کا اعجاز ہے ۔
تفسير المراغي،أحمدبن مصطفى المراغي(م: 1371ھ)(1/ 13)مصطفى البابى الحلبي
7- طريق كتابة القرآن الكريم: من المعروف أن لكتابة القرآن طريقا خاصة تخالف الطريق التي اتبعها العلماء فيما بعد ودرجوا عليها، ودوّنوا فيها كتبا تعرف بعلم رسم الحروف، أو علم الإملاء، وبه كتبت جميع المؤلفات من القرن الثالث فما بعده إلى اليوم. أما كتابة المصحف فهى تابعة للطريق التي كتب بها المصحف فى عهد عثمان ابن عفان الخليفة الثالث على يد جماعة من كبار الصحابة وتسمى (الرسم العثماني) وقد اتبع فيها نهج خاص يخالف ما اتبع فيما بعد فى كثير من المواضع، ومن ثم قيل: خطان لا يقاس عليهما: خط العروض، وخط المصحف العثماني۔
رسم المصحف وضبطه بين التوقيف والاصطلاحات الحديثة،شعبان محمد إسماعيل (ص:69،76)دارالسلام
خامسا: أن تلاوة القرآن لها أحكام خاصة، لا يمكن أن تعرف إلا بالتلقي والمشافهة، حتى يتصل سند التلقي والإقراء من لدن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إلى قيام الساعة، وهذه خاصية اختص الله بها القرآن الكريم، وبقاء الخط العثماني يدفع المسلمين إلى الحرص على التلقي من أه الاختصاص، فتبقى سلسلة السند متصلة۔
سادسا: أن الرسم العثماني له خصائص ومميزات ليست موجودة في الرسم الإملائي. ومن هذه المميزات: الإشارة: إلى ما في الكلمة من أوجه القراءات، كالأمثلة التي تقدمت عند الكلام على كيفية اشتمال المصاحف على ما استقر وصح نقله عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ولم تنسخ تلاوته، وموافقة القراءة لرسم المصحف شرط من شروط قبولها،فارتباط الرسم العثماني بالقراءات ارتباط وثيق الصلة،ولا يمكن أن يقوم مقامه أي رسم آخر…۔
ثالثا: أن الرسم العثماني بظواهره المتقدمة المخالفة لقواعد الرسم الاصطلاح توقع عامة المسلمين في حرج، وتؤدي إلى التحريف في كتاب الله تعالى، فتحاشيا لذلك يجب كتابة المصاحف بالرسم الإملائي الحديث، تمشيا مع المصلحة التي تتفق مع قواعد الشريعة ومقاصدها العامة۔
تفسير الرازي، فخرالدين محمد بن عمر(م: 606ھ)(1/ 175)دارإحياء التراث
الحجة السادسة:التسمية مكتوبة بخط القرآن،وكل ما ليس من القرآن فإنه غير مكتوب بخط القرآن،ألا ترى أنهم يمنعوا من كتابة أسامي السور في المصحف، ومنعوا من العلامات على الأعشار والأخماس، والغرض من ذلك كله أن يمنعوا من أن يختلط بالقرآن ما ليس منه فلو لم تكن التسمية من القرآن لما كتبوها بخط القرآن،ولما أجمعواعلى كتبها بخط القرآن علمنا أنها من القرآن۔
كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم،محمد بن علي الحنفي التهانوي(م: بعد 1158ھ) (1/ 746)مكتبة لبنان
الخط:[في الانكليزية] Writing ،handwriting
بالفتح والتشديد لغة تصوير اللفظ بحروف هجائه المعبّر عنه بالفارسية ب نوشتن.۔۔۔۔ الرّسم: [في الانكليزية]  Mark ،figure
،trace، definition             ،determination
بالفتح وسكون السين المهملة في اللغة العلامة۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس