حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ حضور نبی کریم (ص) کو کیسے دیکھا؟
نمبر1—- بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، انکی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کر لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار نے آ لیا۔ سخت جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا، لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھ کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پہ میری قمیص بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کے جَو پیس۔ اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہایت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟ جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔ قصہ مختصر کہ بلال نے حضور کو کافی سخت جملے کہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب چل پڑے تو بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔ حضور یہ سن کر بھی چلتے رہے۔۔ بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔ لیکن بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اس کا واسطہ پڑا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے۔ بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔ میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔ بلال سو گئے اور حضور نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔ صبح بلال کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابی ءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔
نمبر2— وہ بلال جو ایک دن اذان نہ دے تو خدا تعالی سورج کو طلوع ہونے سے روک دیتا ہے۔
نمبر3—– اس نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔ایثار اور اخوت کا یہ جذبہ اتنا طاقتور ہے۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین
سوال میں ذکر کردہ پہلی دونوں روایات(1-چکی پیسنے والی روایت ، 2-حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ایک دن اذان نہ دی تو خدا نے سورج طلوع ہونے سے روک دیا) سنداً ہمیں کہیں نہیں ملی۔ البتہ تیسری روایت(حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد اذان دینا بند کردی کیونکہ جب اذا ن میں اشہد ان محمدا رسول اللہ تک پہنچتے تو حضور ﷺ کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زاروقطار رونے لگتے تھے)کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ
آپ ﷺ کی وفات کے بعد تدفین سے پہلے حضرت بلال نے اذان دینی شروع کی تو “اشہد ان محمدا رسول اللہ” کہنے پر سارے لوگ مسجد میں جمع ہو کر زار وقطار رونے لگے اور تدفین کے بعد جب حضرت ابو بکر نے اذان دینے کا فریضہ جاری رکھنے کی درخواست کی توحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ ﷺ کے بعد کسی کے لئے اذان نہیں دوں گا۔
اس کے بعد روایات میں صرف دو دفعہ اذان دینے کا ذکر ملتاہے ایک دفعہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے شہر جابیہ میںپہنچے تو لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ آپ حضرت بلال رضی اللہ سے کہیں کہ وہ اذان دیں، تو حضرت عمر رضی اللہ کی درخواست پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نےاذان دی ، دوسری دفعہ ایک روایت کے مطابق جب آپ شام سے مدینہ تشریف لائے تو حضراتِ حسنین نے اذان دینے کی درخواست کی ۔ آپ نے ان کی فرمائش پر اذان دی اور ان دومواقع میں بھی جب لوگوں نے اذان سنی توآپ ﷺ کی یاد میں سارے لوگ زار وقطار رونے لگے۔
السنن الكبرى للبيهقي (1/ 617) دار الكتب العلمية
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنا أبو يحيى أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا أبو عبد الله محمد بن نصر، ثنا أبو الوليد أحمد بن عبد الرحمن القرشي، ثنا الوليد بن مسلم، قال: سألت مالك بن أنس عن السنة في الأذان فقال: ما تقولون أنتم في الأذان وعمن أخذتم الأذان؟ قال الوليد: فقلت: أخبرني سعيد بن عبد العزيز وابن جابر وغيرهما أن بلالا لم يؤذن لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأراد الجهاد فأراد أبو بكر منعه وحبسه فقال: إن كنت أعتقتني لله فلا تحبسني عن الجهاد وإن كنت أعتقتني لنفسك أقمت، فخلى سبيله وكان بالشام حتى قدم عليهم عمر بن الخطاب الجابية فسأل المسلمون عمر بن الخطاب أن يسأل لهم بلالا يؤذن لهم فسأله فأذن لهم يوما أو قالوا: صلاة واحدة قالوا: فلم ير يوما كان أكثر باكيا منهم يومئذ حين سمعوا صوته ذكرا منهم لرسول الله صلى الله عليه وسلم۔
تاريخ دمشق لابن عساكر (10/ 470) دار الفكر
قال وأخبرنا محمد بن سعد أخبرنا محمد بن عمر عن موسى بن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبيه قال لما توفي رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أذن بلال ورسول الله (صلى الله عليه وسلم) لم يقبر فكان إذا قال أشهد أن محمدا رسول الله انتحب الناس في المسجد قال فلما دفن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال له أبو بكر أذن فقال إن كنت إنما أعتقتني لأن أكون معك فسبيل ذلك وإن كنت أعتقتني لله فخلني ومن أعتقتني له فقال ما أعتقتك إلا لله قال فإني لا أؤذن لأحد بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ……۔
حدثنا الوليد بن مسلم قال سألت مالك بن أنس عن السنة في الأذان فقال ما تقولون أنتم في الأذان وعن من أخذتم الأذان قال الوليد فقلت أخبرني سعيد بن عبد العزيز وابن جابر وغيرهما أن بلالا لم يؤذن لأحد بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وأرا الجهاد فأراد أبو بكر منعه وحبسه فقال إن كنت أعتقتني لله تعالى فلا تحبسني عن الجهاد وإن كنت أعتقتني لنفسك أقمت فخلى سبيله فكان بالشام حتى قدم عليهم عمربن الخطاب الجابية فسأل المسلمون عن عمر بن الخطاب أن يسأل لهم بلالا يؤذن لهم فسأله فأذن لهم يوما أو قالوا صلاة واحدة قالوا فلم ير يوما أكثر باكيا منهم يومئذ حين سمعوا صوته ذكرا منهم لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) قالوا فنحن نرى أن أذان أهل الشام عن أذانه يومئذ وذكر باقيه أخبرنا أبو الحسن علي بن محمد الخطيب أخبرنا محمد بن الحسن النهاوندي حدثنا أحمد بن الحسين أخبرنا عبد الله بن محمد القاضي حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري حدثنا يحيى بن بشر حدثنا فرات حدثنا هاشم بن سعد عن زيد بن أسلم عن أبيه قال قدمنا الشام مع عمر فأذن بلال فذكر الناس النبي (صلى الله عليه وسلم) فلم أر يوما أكثر باكيا۔
تاريخ دمشق لابن عساكر (7/ 136) دار الفكر
عن أبي الدرداء قال لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين۔
مرقاة المفاتيح (9/ 4029) دار الفكر
6260 – (وعن قيس بن أبي حازم) قال المؤلف: هو أحمسي بجلي، أدرك زمن الجاهلية، وأسلم وجاء إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – ليبايعه، فوجده توفي، يعد في تابعي الكوفة، روى عن العشرة إلا عبد الرحمن بن عوف، وعن جماعة كثيرة سواهم من الصحابة، وليس في التابعين من روى عن تسعة من العشرة إلا هو، وروى عنه جماعة كثيرة من الصحابة والتابعين، شهد النهروان مع علي بن أبي طالب، وطال عمره حتى جاوز المائة، ومات سنة ثمان وتسعين (أن بلالا قال لأبي بكر) ، أي: حين أراد التوجه إلى الشام بعد وفاة النبي – صلى الله عليه وسلم – لعدم صبره من رؤية المسجد النبوي بغير حضوره – صلى الله عليه وسلم – وعدم القدرة على الأذان فيه، ولا على تركه في زمن غيره، وسيجيء أنه صار سيد الأبدال ومحلهم غالبا هو الشام. (ومنعه أبو بكر – رضي الله عنه -) ، أي: عن الرواح بإلزام على المجاورة مع اختيار الأذان (إن كنت إنما اشتريتني لنفسك) ، أي: لرضاها ووفق مدعاها (فأمسكني) ، أي فاحكم علي بالقعود (وإن كنت إنما اشتريتني لله فدعني) ، أي: فاتركني (وعمل الله). أي العمل الذي اخترته لله، أو الأمر الذي قدره الله وقضاه، وأما حديث رحيل بلال، ثم رجوعه إلى المدينة بعد رؤيته – صلى الله عليه وسلم – في المنام وآذانه بها، وارتجاج المدينة به، فلا أصل له، وهي بينة الوضع ذكره السيوطي في الذيل. (رواه البخاري) ۔