بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

حدیث : ویل للا عقاب کی تحقیق، سنت و مستحب میں فرق

سوال

نمبر۱۔ مسلم شرف حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اگر وضو کرتے ہوئے کوئی ایڑھیاں صحیح طریقہ سے نہ دھوئے تو ایسی ایڑھیوں کو دوزخ میں جلایا جائے گا۔
نمبر۲۔ مستحب اور سنت میں کیا فرق ہے؟

جواب

نمبر۱۔سوال میں مذکور مضمون کی حدیث صحیح مسلم کے علاوہ صحیح بخاری ،اور دیگر کتب احادیث میں بھی موجود ہے۔ جس کا مفہوم یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ ایک دفعہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف جا رہے تھے کہ ہمارا گزر راستے میں پانی پر سے ہوا تو ایک گروہ جلدی سے اس پانی کی طرف بڑھا اور وہ لوگ جلدی جلدی وضو کرنے لگے۔جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ہم نے دیکھاان کی ایڑھیاں خشک تھیں جن کو پانی نے چھوا تک نہ تھا۔تو یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:(ہلاکت یعنی آگ ہے ان ایڑھیوں کے لئے)وضو کامل طریقے سے کیا کرو۔اور مذکورہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
نمبر۲۔ مستحب اور سنت میں فرق یہ ہے کہ :مستحب کا کرنے والا ثواب کا مستحق، اور اس کا ترک کرنا خلاف اولیٰ ہے۔اور سنت میں تفصیل ہے۔سنت کی دو قسمیں ہیں:۱۔ سنت مؤکدہ ۲۔ سنت غیر مؤکدہ۔سنت مؤکدہ کا بلا عذرِ شرعی ترک کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔اورسنت غیر مؤکدہ کا ترک مکروہِ تنزیہی ہے۔
صحيح مسلم (کتاب الطھارۃ /باب وجوب غسل الرجلین بکمالھا)
عن عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ الْعَصْرِ، فَتَوَضَّئُوا وَهُمْ عِجَالٌ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا الْمَاءُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوء.
صحيح البخاري (کتاب الوضوء/باب غسل الاعقاب)
محمد بن زياد، قال: سمعت أبا هريرة، وكان يمر بنا والناس يتوضئون من المطهرة، قال: أسبغوا الوضوء، فإن أبا القاسم صلى الله عليه وسلم قال: «ويل للأعقاب من النار
سنن أبي داود(کتاب الطھارۃ/باب فی اسباغ الوضوء)
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوء
 رد المحتار(1/ 653) سعید
(قوله وترك كل سنة ومستحب) السنة قسمان: سنة هدي وهي المؤكدة وسنة زوائد. والمستحب غيره وهو المندوب، أو هما قسمان. وقد يطلق عليه سنة وقدمنا تحقيق ذلك كله في سنن الوضوء. ۔۔۔ الحاصل أن السنة إن كانت مؤكدة قوية لا يبعد كون تركها مكروها تحريما، وإن كانت غير مؤكدة فتركها مكروه تنزيها. وأما المستحب أو المندوب فينبغي أن يكره تركه أصلا، لقولهم، يستحب يوم الأضحى أن لا يأكل أولا إلا من أضحيته؛ ولو أكل من غيرها لم يكره، فلم يلزم من ترك المستحب ثبوت الكراهة إلا أنه يشكل عليه قولهم المكروه تنزيها… وأما المستحب أو المندوب فينبغي أن يكره تركه أصلا، لقولهم، يستحب يوم الأضحى أن لا يأكل أولا إلا من أضحيته؛ ولو أكل من غيرها لم يكره، فلم يلزم من ترك المستحب ثبوت الكراهة إلا أنه يشكل عليه قولهم المكروه تنزيها مرجعه إلى خلاف الأولى، ولا شك أن ترك المستحب خلاف الأولى. اهـ

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس