بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

جن کے لیے وصیت کی ہو وہ اگر غائب ہوں تو کیا حکم ہے؟

سوال

ایک کینسر کا مریض تھا اس نے اپنے علاج معالجہ کے لیے ایک ” این۔جی۔او” سے رابطہ کیا” این ۔ جی۔ او” نے اس کے کوائف بیرون ملک کے کچھ لوگوں کو بھیجے اور اُن لوگو ں نے رقم مریض کے اکاؤنٹ میں بھیج دی ، جب پیسے اسے پہنچ گئے تو اس کی بیماری اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ اس کو اندازہ ہو چکا تھا اب میرا بچنا ممکن نہیں تو اس نے ورثاء کو یہ کہا کہ یہ رقم بھیجنے والوں کو واپس کردی جائے اب جب یہ شخص فوت ہو گیا تو اس کے ورثاء کو معلوم نہیں کہ پیسے بھیجنے والے کون ہیں ؟اس “این ۔جی۔ او” سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے اصولو ں کے مطابق پیسے واپس کرنے کی کوئی صورت ممکن نہیں، لہذا اب یہ رقم آپ خود رکھیں ،جب ان سے کہا کہ آپ واپس نہ لیں بلکہ ہماری طرف سے بطورِ چندہ کے وصول کر لیں تو ان کی ذمہ دار خاتون نے کہا کہ آپ میرے ذاتی اکاؤنٹ میں رقم جمع کر سکتے ہیں ” این۔ جی ۔او ” کے اکاؤنٹ میں نہیں ، جس کی وجہ سے ورثاء کو یہ شبہ ہے کہ رقم صحیح مصرف میں نہ پہنچ سکے گی اب سوال یہ ہے کہ ورثاء وصیت پر کیسے عمل کریں ؟

جواب

مذکورہ صورتِ حال میں جب رقم مریض کے اکاؤنٹ میں آگئی تو مریض اس رقم کا مالک بن گیا ۔ اس کے بعد مریض کا یہ کہنا کہ:” یہ رقم بھیجنے والوں کو واپس کر دی جائے ” تو یہ بحکم ِ وصیت کے ہے ۔اور وصیت کا حکم یہ ہے کہ مرحوم کے کل ترکہ میں سے تجہیز و تکفین اور ادائیگی ِ قرض کے بعد بچ جانے والے ترکے کے ایک تہائی تک نافذ کی جاتی ہے ۔
لہذا اگر مذکورہ رقم مرحوم کے کل مال کا تہائی 3/1 یا اس سے کم ہو ( اور اگر زیادہ ہو تو ایک تہائی کی حد تک)تو وہ مرحوم کی وصیت کے مطابق رقم دینے والوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اگر ان تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو یہ رقم کسی نیک کام میں خرچ کر دی جائے ۔
صحيح البخاري (كتاب الوصايا،باب الوصية بالثلث)
 عن عامر بن سعد، عن أبيه رضي الله عنه، قال: مرضت، فعادني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن لا يردني على عقبي، قال: «لعل الله يرفعك وينفع بك ناسا»، قلت: أريد أن أوصي، وإنما لي ابنة، قلت: أوصي بالنصف؟ قال: «النصف كثير»، قلت: فالثلث؟ قال: «الثلث، والثلث كثير أو كبير»، قال: فأوصى الناس بالثلث، وجاز ذلك لهم۔
بدائع الصنائع  (7/ 331)العلمية
وأما ركن الوصية فقد اختلف فيه قال أصحابنا الثلاثة – رحمهم الله -: هو الإيجاب، والقبول الإيجاب من الموصي، والقبول من الموصى له فما لم يوجدا جميعا لا يتم الركن، وإن شئت قلت: ركن الوصية الإيجاب من الموصي، وعدم الرد من الموصى له وهو أن يقع اليأس عن رده، وهذا أسهل۔
البحر الرائق (8/ 531) دار الكتاب الإسلامي
قال – رحمه الله – (وصح قسمة القاضي وأخذ حظ الموصى له إن غاب) أي إن غاب الموصى له؛ لأن الوصية صحيحة وإن كان قبل القبول ولهذا لو مات الموصى له قبل القبول تصير الوصية ميراثا لورثته۔
بدائع الصنائع (6/ 202) العلمية
اذا أخذ اللقطة فإنه يعرفها لما روي عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه قال «عرفها حولا» حين سئل عن اللقطة. ۔۔ثم إذا عرفها ولم يحضر صاحبها مدة التعريف فهو بالخيار إن شاء أمسكها إلى أن يحضر صاحبها، وإن شاء تصدق بها على الفقراء۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس