بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

جمعہ کے دن فجر کی نماز میں مسنون قرآت کو مستقل معمول بنانے کاحکم

سوال

ایک مسئلہ وضاحت طلب ہے کہ ایک امام صاحب ہر جمعے کو فجر کی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد “سورۃ السجدۃ “پڑھتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد “سورۃ الدھر” پڑھتے ہیں ان کا عرصہ ۶ سال سے یہی معمول ہے۔ ایک دن کسی اور شخص نے فجر کی نماز پڑھائی اور ان سورتوں کے علاوہ کوئی اور سورتیں پڑھ دیں نماز کے بعد مقتدیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ تم نے “سورۃ السجدۃ “اور” سورۃ الدھر” کیوں نہیں پڑھی؟ لہذا اس کی شرعی حیثیت بتائیں کہ یہ سورتیں پڑھنا کہاں تک لازم ہے؟

جواب

جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں “سورۃ السجدۃ” اور دوسری رکعت میں” سورۃ الدھر” پڑھنا سنت ہے۔ لیکن اس کو مستقل معمول بنا لیناجس سے لوگ اس کو فرضیت کا درجہ دینے لگ جائیں ناپسندیدہ ہے۔ لہذا امام صاحب کو چاہیے کبھی کبھی اس کو ترک کردیا کریں۔
سنن الترمذي ت (1/ 653) دار الغرب الإسلامي
حدثنا علي بن حجر، قال: أخبرنا شريك، عن مخول بن راشد، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ يوم الجمعة في صلاة الفجر: تنزيل السجدة، وهل أتى على الإنسان
الدر المختار(2/ 325) دار الفكر
(ولا يتعين شيء من القرآن لصلاة على طريق الفرضية) بل تعين الفاتحة على وجه الوجوب (ويكره التعيين) كالسجدة و – {هل أتى} [الإنسان: 1]- لفجر كل جمعة، بل يندب قراءتهما أحيانا
رد المحتار(2/ 325) دار الفكر
(قوله على طريق الفرضية) أي بحيث لا تصح صلاة بدونه كما يقول الشافعي في الفاتحة (قوله ويكره التعين إلخ) هذه المسألة مفرعة على ما قبلها لأن الشارع إذا لم يعين عليه شيئا تيسيرا عليه كره له أن يعين، وعلله في الهداية بقوله: لما فيه من هجر الباقي وإيهام التفضيل (قوله بل يندب قراءتهما أحيانا) قال في جامع الفتاوى: وهذا إذا صلى الوتر بجماعة، وإن صلى وحده يقرأ كيف شاء اهـ وفي فتح القدير: لأن مقتضى الدليل عدم المداومة لا المداومة على العدم كما يفعله حنفية العصر، فيستحب أن يقرأ ذلك أحيانا تبركا بالمأثور، فإن لزوم الإيهام ينتفي بالترك أحيانا، ولذا قالوا: السنة أن يقرأ في ركعتي الفجر بالكافرون والإخلاص. وظاهر هذا إفادة المواظبة، إذ الإيهام المذكور منتف بالنسبة إلى المصلي نفسه اهـ ومقتضاه اختصاص الكراهة بالإمام
الفتاوى التاتارخانية(2/71)فاروقية
وفي الحجة: ولو تبرك بقراءة النبى صلى الله عليه وسلم, فقرأ سورة السجدة و “هل أتى على الإنسان” (في الفجر) يوم الجمعة جاز, ولا يداوم على ذلك, …………. و في السغناقى
ويكره أن يتخذ سورة السجدة, و”هل أتى على الإنسان” لصلاۃ الفجر فى كل جمعة, وقال الشافعى رحمه الله: يستحب ذلك

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس