بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد مقتدیوں کو منقول درود پڑھنے کی یاد دہانی کرانا

سوال

مسئلہ یہ ہے کہ اکثر ہماری مسجد میں جمعۃ المبارک کو بعد نماز عصر دعا سے قبل امام صاحب مقتدیوں کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ آج جمعہ المبارک کا دن ہے اسی (80)مرتبہ درود شریف یعنی ( اللهم صل علی محمد النبی الامی و علی الہ وسلم تسلیما) پڑھ لیں- حل طلب یہ ہے کہ امام کا یہ عمل از روئے شریعت کیسا ہے اور اس درود شریف کی حیثیت محدثین کے نزدیک کیا ہے؟کیونکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ درود شریف صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

جواب

ذکر کردہ درود شریف متعدد جلیل القدر محقق محدثین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے  اور اس پر کوئی حکم نہیں لگایا اس مفہوم کی تمام روایات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درود شریف نہ شدید ضعیف ہے نہ  ہی من گھڑت،اور فقہاء ومحدثین کا اصول ہے کہ فضائل اعمال میں ایسی حدیث جس کا ضعف شدید نہ ہواور وہ کسی اسلامی اصولوں کے خلاف نہ ہو اور اس کے ثابت ہونے کا یقین نہ کیا جائے تووہ قابل اعتبار ہوتی ہے ،بالخصوص جبکہ متعدد طرق سے منقول ہو۔واضح رہے کہ یہ درود شریف حضرت ابو ہریرہ اور سہل بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور حکما  مرفوع ہے۔
:القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع، محمد بن عبد الرحمن (م: 902 ھ)(ص: 198،199) دار الکتب العربیۃ
من حديث أبي هريرة أيضاً من صلى صلاة العصر من يوم الجمعة فقال قبل أن يقوم من مكانه اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليماً ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً وكتبت له عبادة ثمانين سنة ۔۔۔۔وعند الدارقطني مرفوعاً بلفظ من صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفر الله له ذنوب ثمانين سنة قيل يارسول الله كيف الصلاة عليك قال تقول اللهم صل على محمد عبدك ونبيك ورسولك، النبي الأمي۔۔۔۔ وعن سهل بن عبد الله قال من قال في يوم الجمعة بعد العصر اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى إله وسلم ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً۔
:الدر المختار،علاء الدین الحصکفی(م:1088ھ)(1/ 128)ایچ۔ایم۔سعید
شرط العمل بالحديث الضعيف عدم شدة ضعفه، وأن يدخل تحت أصل عام، وأن لا يعتقد سنية ذلك الحديث۔
:رد المحتار،ابن عابدین الشامی(م:1252ھ) (1/128)ايچ۔ايم۔سعيد
قال ابن حجر في شرح الأربعين لأنه إن كان صحيحا في نفس الأمر فقد أعطي حقه من العمل وإلا لم يترتب على العمل به مفسدة تحليل ولا تحريم ولا ضياع حق للغير، وفي حديث ضعيف «من بلغه عني ثواب عمل فعمله حصل له أجره وإن لم أكن قلته» أو كما قال. اهـ. ط. قال الأسيوطي: ويعمل به أيضا في الأحكام إذا كان فيه احتياط۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ درود شریف والی روایت فی نفسہ قابل عمل ہے ،اور خیر کے کام کی ترغیب امر بالمعروف کے تحت مستحسن ہے لہذا بطور تعلیم وتذکیر اس کے پڑھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے لیکن ہر جمعہ کو بعد نماز عصر اس عمل کے اہتمام کو عقیدتا لازم نہ سمجھا جائے۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس