بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

جمعہ کی اذان زوال سے پہلے دینا

سوال

کینیڈا میں ایک جگہ جہاں مسلمان بھائی مختلف فقہوں پر عمل پیرا ہیں وہاں مسلمانوں نے جمعہ کی ادائیگی کے لئے ایک ہال کا انتظام کیاہے اس ہال میں جگہ کم ہے اور نمازی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے اس ایک ہال میں تین مرتبہ جمعہ کی جماعت کروانی پڑتی ہے اور جمعہ کی اذان زوال سے پہلے دی جاتی ہے اور پہلاجمعہ زوال کے بعد ہوتاہے ، کچھ نمازیوں کا کہناہے کہ زوال سے پہلے اذان نہیں ہوتی ، جبکہ انتظامیہ کا اصرار ہے کہ اذان زوال سے پہلے دی جائے ، اس مسئلہ میں آپ راہ نمائی فرمائیں کہ زوال سے پہلے اذان دینا کیسا ہے؟

جواب

جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم اور جمہور فقہاء کرام حضراتِ احناف ، حضراتِ شوافع اور حضرات مالکیہ رحمہم اللہ کے نزدیک جمعہ کی پہلی اذان زوال سے پہلے دینا درست نہیں ،اور جواذان زوال سے پہلےدی جائے ، اس سے اذان کی سنت ادانہیں ہوتی البتہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک زوال سے پہلے اذان دینا درست ہے ،اس لئے صورتِ مسئولہ میں جمعہ کی پہلی اذان بھی زوال کے بعد دی جائےکیونکہ زوال کے بعد اذان دینے سے تمام صحابہ ، تابعین اور فقہاء کے نزدیک اذان کی سنت ادا ہوجائے گی ، کسی کا اختلاف نہیں رہے گا اور وہاں موجود تمام مسلمانوں کی رعایت بھی ہوجائے گی جوپسندیدہ اور مستحسن ہے جبکہ پہلے اذان دینے کی صورت میں اکثر حضرات کے نزدیک اذان کی سنت ادانہیں ہوگی اور اختلاف وانتشارکی کیفیت برقرار رہے گی جوامتِ مسلمہ کے لئےمضر اور ناپسندیدہ ہے ۔
اعلاء السنن،العلامة ظفر احمد العثماني(م:1349ھ)(5/ 2315تا 2318)دارالفکر
عن أنس بن مالك رضي الله عنه: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس»رواه الامام البخاری…عن سلمة بن الأكوع، رضی الله عنه قال: «كنا نجمع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا زالت الشمس، ثم نرجع نتتبع الفيء»…عن ابی اسحاق انه صلی خلف علیّ الجمعة بعد مازالت الشمس رواه ابن ابی شیبة واسناده صحیح۔
اعلاءالسنن،العلامةظفراحمدالعثماني(م:1394ھ)(5/ 2319)دارالفکر
قال النووی: وقد قال مالک وابوحنیفة والشافعی وجماهیر العلماء من الصحابة والتابعین بعدهم: لاتجوز الجمعة الابعد زوال الشمس ولم یخالف فی هذا الا احمد بن حنبل واسحاق فجوزاها قبل الزوال (کذا فی فتح الملهم شرح صحیح مسلم(4/ 318) دارالعلوم كراتشي۔
فقه الاسلامی وأدلته، وَهْبَة بن مصطفى الزُّحَيْلِيّ(1/ 697، 698)رشیدیة
یشترط فی الاذان والاقامة مایاتی۔
– دخول الوقت:فلایصح الاذان ویحرم باتفاق الفقهاء قبل دخول وقت الصلاة،فان فعل اعاد فی الوقت۔
البحرالرائق،العلامة ابن نجيم المصري(م: 970ھ)(2/ 273)رشیدیة
قوله: (ویجب السعی وترک البیع بالاذان الاول )لقوله تعالیٰ (يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلٰى ذِكْرِ اللّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ)،سورة الجمعة،وانما اعتبر الاذان الاول لحصول الاعلام به، ومعلوم انه بعد الزوال اذ الاذان قبله لیس باذان، وهذا القول هوالصحیح فی المذهب۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

6

/

50

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس