بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

ثالث فریقین کے درمیان کس طرح فیصلہ کرے؟/کمپنی کی جانب سے مقررہ کردہ ثالث غلط فیصلہ کرلے توگناہ گارکون؟

سوال

ہماری کمپنی میں کئی دفعہ مختلف قسم کے باہمی تنازعات پیداہوجاتےہیں جن میں بطورمنیجر/مالک مجھے ان تنازعات کاتصفیہ یافیصلہ کرناپڑتاہے جن میں بعض معاملات گواہی وثبوت یااقرار کی بناپر واضح ہوجاتے ہیں ۔ بعض میں گواہی موجود نہیں ہوتی مگر ملزم اقرار کرلیتاہے ۔
بعض میں گواہی نہیں ہوتی البتہ تحریر ی ثبوت پایاجاتاہے مگر ملزم انکار کردیتاہے ۔بعض میں نہ گواہی ہوتی ہے نہ ہی واضح تحریری ثبوت ہوتاہے ملزم بھی انکار کرتاہے مگر حالات وواقعات سے الزام سچالگ رہاہوتاہے۔ بعض دفعہ دونوں فریقین کےپاس گواہی موجود نہیں ہوتی اور دونوں قسم کھانےکے لئے تیارہوجاتے ہیں ۔ بعض مرتبہ کچھ لوگوں پر کسی جرم کے الزام کی صورت میں سب منکر ہوتے ہیں جب کہ ان میں سے کسی ایک پرچور ہونے /مجرم ہونے پر حالات وواقعات اور قرائن کی بناپر دل کا گمان ہوجاتاہے ۔
نمبر 1:مذکورہ بالامختلف صورتوں میں تنازعات کاتصفیہ وفیصلہ بطور منیجر /مالک مجھے کیسے کرناچاہئے؟ تاکہ شریعت کے مطابق فیصلہ ہو اور میری آخرت خراب نہ ہو ،کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور حق دار کو اس کاحق مل جائے ،اگر میں کوئی غلط فیصلہ کر بیٹھوں تو کیادنیاوآخرت میں میرامواخذہ ہوگا ؟
نمبر2:کیاکمپنی مالکان کسی شخص کو فیصلہ کرنے کاحکم دیں تو کیانہ چاہنے کے باوجود وہ غلط فیصلہ کردے تو کمپنی مالکان گناہ گار ہوں گے ؟
نمبر3:کمپنی مالکان کی طرف سے مختلف منیجر ز کے لئے اپنے شعبے کے لئے افراد کورکھناان سے متعلق امور کو دیکھنااور تنازعات کو حل کرنا متعلقہ شعبے کے منیجر کی ذمہ داری ہے تو کیاایسی صورت میں منیجر تنازع کا فیصلہ کرنے سے انکار کر سکتاہے ؟

جواب

نمبر1:۔مذکورہ صورت میں فریقین کے در میان فیصلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ فریقین منیجر کو اپناثالث مقررکریں کہ وہ شریعت کے مطابق جو بھی فیصلہ کرےگا ہم اس کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس کے بعد منیجر فیصلہ کرنے کےلئے درجہ ذیل اصولوں کو پیش نظررکھے ۔
الف:۔فریقین میں سے مدعی اور مدعی علیہ کاتعین کرے واضح رہے کہ مدعی اور مدعی علیہ کاتعین بہت اہم اور مشکل کام ہے اس کےلئے کسی مستند عالم دین کی راہ نمائی ضرورحاصل کی جائے ۔
ب:۔فیصلہ کرنے کے بجائے فریقین کو صلح پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی جائے ۔
ج:۔پہلے مدعی سے گواہی لی جائے اگر وہ گواہی پیش نہ کر سکے تو پھر مدعی علیہ سے قسم لی جائے دونوں سے قسم نہ لی جائے مدعی علیہ اگر قسم اٹھالے تو اس کے حق میں فیصلہ کیاجائے اور اگر مدعی علیہ قسم سے انکار کردے یاابتداء میں ہی اقرار کرلے یامدعی گواہ پیش کردے تو مدعی کے حق میں فیصلہ کیاجائے ۔
د:۔محض قرائن اور اندازے سے کسی کے خلاف فیصلہ نہیں کیاجاسکتا،تحریر کو بعض مواقع پر قبول کیاجاتاہے اور بعض پر نہیں کیاجاتااس لئے پیش آمدہ مسئلہ کی تفصیل بتاکر راہ نمائی حاصل کرلیں ۔
نمبر2:-جس کو فیصلہ کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے اگر وہ اس کااہل ہے تو اس صورت میں کمپنی کے مالکان گناہ گار نہیں ہوں گے ۔
نمبر3:۔اگر تنازعات کو حل کرنا منیجر کی ذمہ داری میں شامل ہے اور کسی مقدمہ میں فریقین ان کو اپناثالث مقرر کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کے لئے اس سے انکار کرنادرست نہیں ۔
بدائع الصنائع،العلامة علاءالدين الكاساني(م:587هـ)(6/272)دارالكتب العلمية
ومنها أن يكون عالما بالمشهود به وقت الأداء، ذاكرا له عند أبي حنيفة – رحمه الله – وعندهما ليس بشرط حتى إنه لو رأى اسمه وخطه وخاتمه في الكتاب، لكنه لا يذكر الشهادة، لا يحل له أن يشهد، ولو شهد وعلم القاضي به لا تقبل شهادته عنده، وعندهما له أن يشهد، ولو شهد تقبل شهادته
        ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(5/462) سعید
 وأن يكون عالما بالمشهود به وقت الأداء ذاكرا له ولا يجوز اعتماده على خطه خلافا لهما
فتح القدير،العلامة ابن الهمام (م:861هـ)(7/292)دارالفكر
                                                   والحاصل إن شهد الشهود على ما في الكتاب فلا بد حينئذ من أن يقرأه عليهم أو يعلمهم ما فيه: أي بإخباره لأنه لا شهادة بلا علم بالمشهود به كما لو شهدوا بأن هذا الصك مكتوب على فلان لا يفيد ما لم يشهدوا بما تضمنه من الدين واشتراط علمهم بما في كتاب القاضي قول أبي حنيفة ومحمد والشافعي وأحمد ومالك في رواية. ومن أن يشهدوا أنه ختمه وذلك بأن يختمه بحضرتهم ويسلمه إليهم، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد، ولا بد أن يكون الكتاب معنونا: أي مكتوبا فيه العنوان الذي قدمناه وهو اسم الكاتب واسم المكتوب إليه ونسبهما والشرط العنوان الباطن، فإن لم يوجد وكان معنونا في الظاهر لا يقبله لتهمة التغيير، وعن هذا قيل ينبغي أن يكون معه نسخة أخرى مفتوحة ليستعينوا بها على حفظ ما في الكتاب فإنه لا بد من التذكر من وقت الشهادة إلى وقت الأداء عندهما
  الفتاوی  الہندیۃ،لجنة العلماء برئاسة نظام الدين البلخي(3/450) دارالفكر
 وأن يكون عالما بالمشهود به وقت الأداء ذاكرا له عند أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – لا عندهما هكذا في البدائع. والعدالة وهي شرط وجوب القبول على القاضي لا جوازه كذا في البحر الرائق. والشرط هو العدالة الظاهرية عند أبي حنيفة – رحمه الله تعالى -، وأما الحقيقية فهي الثابتة بالسؤال عن حال الشهود بالتعديل، والتزكية ليست بشرط، وعند أبي يوسف ومحمد – رحمهما الله تعالى – أنها شرط كذا في البدائع. والفتوى على قولهما في هذا الزمان كذا في الكافي…. ومنها ما يرجع إلى المشهود به، وهو أن يكون بمعلوم، فإن كان بمجهول لا تقبل؛ لأن علم القاضي بالمشهود به شرط صحة قضائه فما لم يعلم لا يمكنه القضاء به

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس