اس آدمی نے مجھے کہا کہ اپنے ماں باپ کو فون کر کے کہو کہ تمہارا زیور یہاں دے کر جائیں۔ جب میں نے ان سے یہ کہہ دیا تو اس نے میرے سے فون لے لیے۔ جب میرا اپنے والدین سے کوئی رابطہ نہ ہوا تو میرے والد اور بھائی گھر آئے ۔ اس آدمی نے دروازہ نہیں کھولا اور مجھے کہا کہ اگر تم ابھی میری اجازت کے بغیر اپنے ماں باپ اور بھائی کے ساتھ گئی تو تمہیں تین طلاقیں ہیں۔ اس میں نہیں گئی۔
پھر جب میرے والد اور بھائی چلے گئے تو اس نے مجھے کہا کہ اگر آئندہ تم میری اجازت کے بغیر ان سے ملی، فون کیا یا ان کو دروازہ کھولا تو تمہیں تین طلاقیں۔
پھر اگلے دن اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرے ساتھ رہنا ہے یا اپنے ماں باپ کے ساتھ فیصلہ کرلو۔ تو میں نے کہا کہ یہیں رہنا ہے۔ پھر اس نے دوبارہ کہا کہ اگر آئندہ میری اجازت کے بغیر ان سے رابطہ کیا تو تمہیں تین طلاقیں ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ میں اتنی جلدی تو اجازت نہیں دوں گا۔
پھر دودن بعد اس نے مجھے کہا کہ میں اپنے طلاق والے الفاظ واپس لیتا ہوں ( یہ نہیں کہا کہ میں والدین سے ملنے کی اجازت دیتا ہوں) میں نے کہا کہ ایسے الفاظ واپس نہیں ہوتے طلاق والے۔ اس نے کہا کہ پھر احتیاط کرو۔ میں نے مولوی صاحب سے پوچھا ہے انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ واپس ہوجاتے ہیں۔ میں نے اس آدمی سے کہا کہ ایک دفعہ کسی اور سے پوچھ لیں تو اس نے کہا کہ کیا پوچھنا ہے ابھی بھی وہی بات ہے کہ میری اجازت کے بغیر ان سے رابطہ نہیں کرنا۔
اس نے مجھے موبائل نہیں دیا اور زبانی کہا بھی نہیں کہ میں ان سے ملنے کی اجازت دیتا ہوں۔میں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنی دوست سے رابطہ کیا دوسرے فون کے ذریعے جو مجھے میرے والدین نے چوری چھپے دیا تھا کہ اپنی خیریت بتادو ( لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ اس آدمی نے یہ الفاظ کہے ہوئے ہیں) پھر میں نے جو پیغام دینا ہوتا تھا میں اپنی سہیلی کو بتادیتی تھی۔ اور ان کے پیغام بھی سہیلی کے ذریعے ہی میرے تک پہنچتے تھے۔ براہِ راست رابطہ نہیں کیا میں نے والدین سے اور نہ میں ان سے ملی۔
پھر ایک دن اس آدمی نے مجھے فون پہ بات کرتے ہوئے سن لیا تو دوسرا فون بھی لے لیا جس پہ میں اپنی سہیلی سے بات کررہی تھی۔ پھر اس کو شک ہوا کہ میں لیپ ٹاپ کے ذریعے والدین سے رابطہ کرتی ہوں اور ان کو میسج کرتی ہوں تو اس نے لیپ ٹاپ بھی لے لیا۔ لیپ ٹاپ سے بھی میں اپنی سہیلی کو خیر خیریت کا میسج کرتی تھی۔ جب اس کی مرضی ہوتی تھی تو فون پہ بات کروا دیتا تھا۔ ( وہ بھی یہ ریکارڈ کرتا تھا) اور جب مرضی نہیں ہوتی تھی تو فون ہی نہیں اٹھاتا تھا۔ ایک سال میں تین عیدیں گزریں یہ تینوں عیدوں پہ مجھے والدین سے ملوانے نہیں لایا اور جب سال بعد میرے والدین بھائی اور ماموں آئے تو اس نے مجھے والدین سے پھر بھی ملنے نہیں دیا۔ صرف ماموں کو اندر بلایا۔ اور ماموں کے آگے بھی یہی کہا کہ اگر تم گئیں تو تمہیں تین طلاقیں ہیں۔( اس میں اس نے آئندہ کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا اور ابھی کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا) بس یہی کہا کہ اگر گئیں تو تین طلاقیں ہیں۔ اس دن میں نہیں گئی۔ پھر جب میرے والدین بھائی اور ماموں پولیس کو لے کر آئے تو میرے والد نے کہا کہ جانے کی اجازت دے دیں لیکن یہ خاموش رہا اس نے کچھ نہیں بولا۔اس نے نہ اجازت دی اور نہ منع کیا ( کیونکہ وہ منع کر بھی نہیں سکتا تھا پولیس کے آگے) اسے پتہ چل گیا تھا کہ اب میں چلی جاؤں گی۔ پھر میں اپنے والدین کے ساتھ آگئی۔
صورتِ مسؤلہ میں عورت کو تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے، لہذا اب میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ، اب ایسی صورتِ حال میں نہ تو آپس میں رجوع کرسکتے ہیں اور نہ ہی نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ البتہ عورت عدتِ طلاق گزرنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کریں اور ہمبستری بھی ہوجائے پھر دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ کسی وجہ سے اسے طلاق دےدے تو عدت گزرنے کے بعد پہلے شوہر کے ساتھ نئے مہر کے عوض نیا نکاح کرنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ حلالہ کی شرط پر دوسری جگہ شادی کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔
:قال الله تعالى
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } [البقرة: ١٣٠]
الفتاوى الهندية (٤١٦/١) دار الفكر
إن دخلت الدار فأنت طالق فدخلت وهي امر أنه وقع الطلاق۔
(امداد الاحکام (۴۹۸/۲) ، كفایت المفتی (۲۸۶/۸)، آپ کے مسائل اور ان کاحل (۲۲/۲))