بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

تہدیدی نا مہ مبارک بدستِ ابو دجا نہ رضی اللہ عنہ”اورواقعہ کی تحقیق”

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس تہدیدی نامہ مبارک بدست ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو سوال کے ساتھ لف ہے آیا یہ واقعہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے او ر اس کی سندی حیثیت کیا ہے اور یہ بھی بتائیے کہ اس کو جنات بھگانے کے لئےاستعمال کرنا کیسا ہے ؟

جواب

سوال کے ساتھ علامہ بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب” دلائل النبوۃ” کےحوالے سےجوواقعہ اور تہدیدی نامہ مبارک منقول ہےوہ مذکورہ کتاب کے متداول نسخوں میں بعینہٖ ان الفاظ کے ساتھ تو ہمیں نہیں ملا، اس لئے ان الفاظ پر مشتمل تہدیدی نامہ کے بارے میں کوئی حتمی حکم نہیں دیاجاسکتا، البتہ یہ واقعہ اور نامہ کچھ مختلف اور کم و بیش الفاظ کے ساتھ متداول نسخوں میں موجود ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ
“حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں شکایت کی : اے اللہ کے رسول!میں اپنے بستر پہ لیٹاہوا تھا کہ اچانک میں نے اپنے مکان میں چکی چلنے اور شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی سی آواز سنی اور بجلی کی طرح ایک چمک اٹھی ۔ میں نے گھبراتے ہوئے سر اوپر کو اٹھایا تو دیکھا کہ ایک کالاسایہ ہے جواوپر کو اٹھا ہواہے اور میرے گھر کے صحن میں لمبائی میں پھیلاہواہے ۔ میں نےاس کی طرف متوجہ ہو کر اس کو چھوا تو اس کی کھال مجھے سیہ (خاردار چوہے )کی کھال کی طرح محسوس ہوئی ،اتنے میں اس نے آگ کے شعلہ جیسی (کوئی چیز)میرے چہرے کی جانب پھینکی ۔میں سمجھا کہ یا تو میں جل جا ؤں گا یا میرے گھر کو آگ لگ جائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ اے ابو دجانہ ! رب کعبہ کی قسم تیرے گھر میں خبیث قوم کا بسیرا ہےاور کیا تجھ جیسے شخص کو ستایاجاتاہے؟ پھر نبی کریم ﷺ نے (حاضرین سے )فرمایا ، کہ میرے پاس ایک کاغذ اور دوات لے آؤ ۔ یہ دونوں چیزیں لائی گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے یہ (کاغذاوردوات) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیں اور فرمایا ، اے ابو الحسن ! لکھو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا لکھوں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا (یہ کلمات )لکھو
بسم الله الرحمن الرحيم. هذا كتاب من محمد رسول رب العالمين صلى الله عليه وسلم، إلى من طرق الدار من العمار والزوار والصالحين، إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن. أما بعد: فإن لنا ولكم في الحق سعة،فإن تك عاشقا مولعا، أو فاجرا مقتحما أو راغبا حقا أو مبطلا، هذا كتاب الله تبارك وتعالى ينطق علينا وعليكم بالحق، إنا كنا نستنسخ ما كنتم تعملون، ورسلنا يكتبون ما تمكرون، اتركوا صاحب كتابي هذا، وانطلقوا إلى عبدة الأصنام، وإلى من يزعم أن مع الله إلها آخر لا إله إلا هو كل شيء هالك إلا وجهه له الحكم وإليه ترجعون يغلبون، «حم» لا ينصرون، حم عسق، تفرق أعداء الله، وبلغت حجة الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم.
ترجمہ: یہ مکتوب (حضرت) محمد ﷺ کی طرف سےہےجو اللہ رب العالمین کےرسول ہیں ان جنات کےنام جوانسانی آبادیوں میں داخل ہوتےہیں رہائش پذیرہیں یازائربن کرآتےہیں یانیک لوگ ہیں مگروہ خیرکےساتھ رات کےوقت آتےہیں امابعد(یادرکہو) ہمارےلئے اورتمہارےلئےحق کےسامنےگنجائش ہے اگرتوعاشق فریفتہ ہےیاگناہ گارہے یاحق یاباطل کی طرف رغبت رکھنےوالاہے(بہرصورت )یہ کتاب الہی ہم پراورتم پرناطق ہےحق کےساتھ، بےشک ہم لکھواتےہیں جوکچھ تم کرتےہو اورہمارےفرستادہ لکھتےہیں جوتم مکرکرتےہو، چھوڑدو ميرےاس رقعہ کےحامل کواورچلےجاؤ بتوں کےپجاریوں کی طرف اوران کی طرف جویہ زعم رکھتےہیں کہ اللہ کےساتھ اورالٰہ بھی ہیں ۔اللہ تعالی کےسواکوئی الہ نہیں، ہرچیزفناہونےوالی ہے مگراس کی ذات (جل وعلا شانہ) اسی کاحکم چلتاہے اور اس کی طرف تم دوبارہ لوٹائےجاؤگے۔ ان کی مددنہ ہوحم عسق پراگندہ ہوگئے اللہ تعالی کی حجت تمام ہوگئی نہیں ہےبرائی سےپھرنےکی طاقت اورنہیں ہےنیکی کےکرنےکی طاقت مگراللہ تعالی کی مددسےجوبلنداورعظیم ہے پس کفایت کرےگا اللہ تعالی تیرےلئےان کی طرف سےوہ سننےوالاجانےوالاہے۔
حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ خط لے کرلپیٹا اور اسے اپنے گھر لاکر اپنے سر کے نیچے رکھ لیا اور رات کو لیٹ گیا تو ایک چیخنے والے کی چیخ نے مجھے بیدا ر کر دیا جویہ کہہ رہاتھا کہ اے ابو دجانہ ! تو نے ہمیں جلا ڈالا ۔ قسم ہے مجھے لات و عزیٰ کی، اپنے حضرت(یعنی نبی کریمﷺ)کے لکھے ہوئے خط کو یہاں سے ہٹا لو ۔ہم آئندہ تمہارے گھر نہیں آئیں گے ۔ ایک اور جن نے کہا کہ تجھے تکلیف دینے نہیں آئیں گے اور نہ تیرے پڑوس میں آئیں گے ۔ بلکہ جس جگہ یہ خط ہوگا وہاں ہم نہیں آئیں گے۔میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے حق کی قسم میں اس وقت تک یہ خط نہیں ہٹاؤں گا جب تک رسول اللہ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں ۔
حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ساری رات مجھے جِنوں کے رونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آتی رہیں یہاں تک کہ صبح ہو گئی تو میں نماز کے لئے گیا اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور نبی کریم ﷺ کو رات جِنوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا سارا واقعہ عرض کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اے ابو دجانہ! یہ خط اٹھا لو، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بر حق بنا کر بھیجا ہےکہ اب ان کو قیامت تک درد ناک عذاب و تکلیف ہوتی رہے گی۔
یہ مکمل واقعہ دلائل النبوہ میں موجود ہے اور اس کی سند ضعیف ہے البتہ علّامہ بیہقی رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے بعد مستنداور معتبر محدّث ابوبکر اسماعیلی رحمہ اللہ کی روایت سے اس کے ایک متابع کا حوالہ بھی دیاہے۔ اس لئے یہ نامہ مبارک بالکل غیرمعتبر نہیں ہے، اگرچہ اس کی ایک دوسری سند کو بعض حضراتِ محدثین مثلاً علامہ سیوطی اور علّامہ ابن جوزی رحمہم اللہ نےموضوع (من گھڑت )قرار دیاہے،لیکن علامہ بیہقی کی ذکرکردہ روایت موضوع نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ ضعیف ہے ، لہذا جنات سے حفاظت کے لئے اوپر ذکرکردہ کلمات کوسبب کے درجہ میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے ۔خاص طورپر اس وجہ سے بھی کہ اس میں کوئی موہمِ شرک لفظ نہیں ہے۔
 دلائل النبوة للبيهقي،أبوبكرأحمدبن الحسين(م: 458ھ)(7/118- 120)دارالكتب العلمية
أخبرنا أبو سهل محمد بن نصرويه المروزي، قال: حدثنا أبو أحمد علي ابن محمد بن عبد الله الحبيبي المروزي، قال: أخبرنا أبو دجانة محمد بن أحمد بن سلمة بن يحيى بن سلمة بن عبد الله بن زيد بن خالد بن أبي دجانة واسم أبي دجانة سماك بن أوس بن خرشة بن لوزان الأنصاري أملاه علينا بمكة في مسجد الحرام بباب الصفا سنة خمس وسبعين ومائتين، وكان مخضوب اللحية قال: حدثني أبي أحمد بن سلمة قال: حدثنا أبي سلمة بن يحيى قال: حدثنا أبي يحيى بن سلمة قال: حدثنا أبي سلمة بن عبد قال: حدثنا أبي عبد الله بن زيد بن خالد قال: حدثنا أبي زيد بن خالد قال: حدثنا أبي خالد بن أبي دجانة قال: سمعت أبي أبا دجانة يقول: شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله بينما أنا مضطجع في فراشي، إذ سمعت في داري صريرا كصرير الرحى، ودويا كدوي النحل، ولمعا كلمع البرق؛ فرفعت رأسي فزعا مرعوبا، فإذا أنا بظل أسود مولى يعلو، ويطول في صحن داري فأهويت إليه فمسست جلده، فإذا جلده كجلد القنفذ، فرمى في وجهي مثل شرر النار، فظننت أنه قد أحرقني، وأحرق داري فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عامرك عامر سوء يا أبا دجانة ورب الكعبة ومثلك يؤذى يا أبا دجانة؟» ثم قال: ائتوني بدواة وقرطاس، فأتي بهما فناوله علي بن أبي طالب وقال: «اكتب يا أبا الحسن». فقال: وما أكتب؟ قال: ” اكتب: بسم الله الرحمن الرحيم. هذا كتاب من محمد رسول رب العالمين صلى الله عليه وسلم، إلى من طرق الدار من العمار والزوار والصالحين، إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن. أما بعد: فإن لنا ولكم في الحق سعة، فإن تك عاشقا مولعا، أو فاجرا مقتحما أو راغبا حقا أو مبطلا، هذا كتاب الله تبارك وتعالى ينطق علينا وعليكم بالحق، إنا كنا نستنسخ ما كنتم تعملون، ورسلنا يكتبون ما تمكرون، اتركوا صاحب كتابي هذا، وانطلقوا إلى عبدة الأصنام، وإلى من يزعم أن مع الله إلها آخر لا إله إلا هو كل شيء هالك إلا وجهه له الحكم وإليه ترجعون يغلبون، «حم» لا ينصرون، حم عسق، تفرق أعداء الله، وبلغت حجة الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم. قال أبو دجانة: فأخذت الكتاب فأدرجته وحملته إلى داري، وجعلته تحت رأسي وبت ليلتي فما انتبهت إلا من صراخ صارخ يقول: يا أبا دجانة أحرقتنا واللات والعزى، الكلمات  بحق صاحبك لما رفعت عنا هذا الكتاب، فلا عود لنا في دارك، وقال غيره: في أذاك، ولا في جوارك، ولا في موضع يكون فيه هذا الكتاب. قال أبو دجانة: فقلت: لا، وحق صاحبي رسول الله صلى الله عليه وسلم لاأرفعنه حتى أستأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو دجانة: فلقد طالت علي ليلتي بما سمعت من أنين الجن وصراخهم وبكائهم، حتى أصبحت فغدوت، فصليت الصبح مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأخبرته بما سمعت من الجن ليلتي، وما قلت لهم. فقال لي: «يا أبا دجانة ارفع عن القوم، فوالذي بعثني بالحق نبيا إنهم ليجدون ألم العذاب إلى يوم القيامة» تابعه أبو بكر الإسماعيلي، عن أبي بكر محمد بن عمير الرازي الحافظ عن أبي دجانة محمد بن أحمد هذا. وقد روي في حرز أبي دجانة حديث طويل، وهو موضوع لا تحل روايته، والله تعالى أعلم بالصواب۔
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة،جلال الدين السيوطي(م: 911ھ)(2/292) العلمية
عن موسى الأنصاري عن أبيه قال شكى أبو دجانة الأنصاري إلى رسول الله فقال يا رسول الله بينا أنا البارحة نائم إذ فتحت فإذا عند رأسي شيطان فجعل يعلوه ويطول فضربت بيدي إليه فإذا جلده القنفذ فقال رسول الله: ومثلك يؤذى يا أبا دجانة عامر دارك عامر سوء ورب الكعبة ادع لي علي بن أبي طالب فدعاه يا أبا الحسن اكتب لأبي دجانة الأنصاري كتابا لا شيء يؤذيه من بعده فقال وما أكتب قال اكتب بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من محمد النبي العربي الأمي التهامي الأبطحي المكي المدني القرشي الهاشمي صاحب التاج والهراوة والقضيب والناقة والقرآن والقبلة صاحب قول لا إله إلا الله إلى من طرق الدار من الزوار والعمار إلا طارقا يبرق بخير أما بعد فإن لنا ولكم في الحق سعة فإن يكن عاشقا مولعا أو مؤذيا مقتحما أو فاجرا مجتهرا أو مدعي حق مبطلا فهذا كتاب الله ينطق علينا وعليكم بالحق ورسله لديكم يكتبون ما تمكرون اتركوا حملة القرآن وانطلقوا إلى عبدة الأوثان إلى من اتخذ مع الله إلها آخر لا إله إلا هو رب العرش العظيم يرسل عليكما شواظ من نار ونحاس فلا تنتصران فإذا انشقت السماء فكانت وردة كالدهان فيومئذ لا يسأل عن ذنبه إنس ولا جان ثم طوى الكتاب فقال ضعه عند رأسك فوضعه فإذا هم ينادون النار النار أحرقتنا بالنار والله ما أردناك ولا طلبنا أذاك ولكن زائر زارنا فطرق فارفع الكتاب عنا فقال والذي نفس محمد بيده لا أرفعه عنكم حتى أستأذن رسول الله فأخبره فقال ارفع عنهم فإن عادوا بالسيئة فعد عليهم بالعذاب فوالذي نفس محمد بيده ما دخلت هذه الأسماء دارا ولا موضعا ولا منزلا إلا هرب إبليس وذريته وجنوده والغاوون، موضوع: وإسناده مقطوع وأكثر رجاله مجاهيل وليس في الصحابة من اسمه موسى أصلا۔
الموضوعات لعلامة ابن الجوزي،(م:597ھ)(3/169)المكتبة السلفية
هذا حديث موضوع بلا شك وإسناده مقطوع، وليس في الصحابة من اسمه موسى أصلا، وأكثر رجاله مجاهيل لا يعرفون۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس