بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

تقلید شخصی کب اور کس زمانہ میں شروع ہوئی؟

سوال

کیا تقلید شخصی اصطلاحی آنحضرتﷺ کےیا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کے زمانہ میں تھی ؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ میں کسی کی تقلید مشروع نہیں تھی تاہم آپﷺ کے وصال کے بعد تقلید شخصی صحابہ کرام کے زمانے میں موجود تھی اسکی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔البتہ دیانت کا زمانہ ہونے کی وجہ سے تقلید شخصی کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ تقلید مطلق و شخصی دونوں کا رواج تھالیکن مرور زمانہ کے ساتھ قلت دیانت کی بنیاد پر چوتھی صدی ہجری کے آخر میں صرف تقلید شخصی پر اجماع ہوگیا۔مزید مراجعت کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب “تقلید کی شرعی حیثیت”کا مطالعہ کرے۔
صحیح البخاری(2/997)محمودیۃ
حدثنا أبو قيس، سمعت هزيل بن شرحبيل، قال: سئل أبو موسى عن بنت وابنة ابن وأخت، فقال: للبنت النصف، وللأخت النصف، وأت ابن مسعود، فسيتابعني، فسئل ابن مسعود، وأخبر بقول أبي موسى فقال: لقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين، أقضي فيها بما قضى النبي صلى الله عليه وسلم: «للابنة النصف، ولابنة ابن السدس تكملة الثلثين، وما بقي فللأخت» فأتينا أبا موسى فأخبرناه بقول ابن مسعود، فقال: لا تسألوني ما دام هذا الحبر فيكم.

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس