بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تعارف دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

عمل سے پہلے راہ نمائی                                                                                                                                                                                                                                                                                   کامیاب اورپرسکون زندگی

     سوال کی اہمیت 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد عربی ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا اور آ پ کو ایک عظیم دین (دینِ اسلام )عطا فرمایا ، جو زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ سے متعلق راہ نمائی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے واضح ہدایت فرمادی کہ جو علم وعمل اس دین کے مطابق ہو گا وہی قابل قبول ہےاورجس عمل کےذریعہ اس دینِ متین کی خلاف ورزی کی جائے وہ ناقابل قبول ہوگا، اس لئے ہر مسلمان کو اپنے تمام اعمال، شرعی راہ نمائی حاصل کر نے کے بعد سر انجام دینے چاہئیں اور اس مقصد کی خاطر ان راسخ علماکی خدمت میں حاضر ہونا چاہئے جو قرآن و سنت کا گہرا علم رکھتے ہیں ؛صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور سلف صالحین کے نقشِ قدم پر نیکی اور تقویٰ اپنائے ہوئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ ” اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرو”(سورۃ النحل ،۴۳،معارف القرآن)رسول اللہ  ﷺ کا فرمان ہے:” اچھا سوال کر نا آدھا علم ہے”(المعجم الکبیر )اور’’لاعلمی کی بیماری کا علاج سوال کر نے میں ہے ‘‘(مشکاۃ المصابیح )

           مذکور ہ بالا آیت مبارکہ اور احادیث  شریفہ سے معلوم ہو ا کہ جن لوگوں  کو احکام شریعت کے بارے میں علم نہ ہو ،ان پر واجب ہے کہ علما سے دریافت کر کے اس کے مطابق عمل کر یں ۔اس میں عوام کو علماسے پوچھنے اور ان کے فتویٰ پر عمل کر نے کا پابند بنا یاگیا ہے ۔(تفسیر القرطبی ،نوادر الفقہ۱۔۱۱۳)

مسئلہ دریافت  کرنے کے فضائل

رسول اللہ ﷺ فر ما تے ہیں :جو شخص علم کی تلاش میں چلتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کے راستے کو آسان کردیتے ہیں۔ (صحیح البخاری) علم حاصل کر نے کےلئے گھر سے نکلنے والا واپس لوٹنے تک اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔(سنن الترمذی )علم کی طلب (تلاش ،جستجو اور اس میں مشقت بر داشت کر نا )آدمی کے گذشتہ (چھوٹے ) گناہو ں کے لئے کفارہ بن جا تی ہے ۔(حوالہ بالا)اور اس سے جو علماء کی صحبت نصیب ہو تی ہے وہ صحبت بھی عبادت ہے (کنز العمال)

دارالافتاء کا مطلب

“دار الافتاالاحسان”دینی راہ نمائی میں امت ِمسلمہ کی ضرورت پوری کرتا ہے ،جہاں علماء اور مفتیان کرام لوگوں  کی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق جائز و نا جائز ، حلال و حرام اور پاکی و نا پا کی سے متعلق مسائل کی شریعت کے مطابق تحقیق کر کے ان کو ہدایات فراہم کر تے ہیں اوریہاں اسلام کے مطابق عوام کو دنیوی اور  اخروی حوالے سے دیانتاً مستند آگاہی دی جاتی ہے ۔

دار الافتا ، فتوے  کی تاریخ اور اس کا ماخذ

عہد نبوی میں لوگ (مسلم و غیر مسلم )  آپ  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ وحی کی روشنی میں آپ  ﷺ جو بھی راہنمائی فر ما تے وہ سب کے لئے آپ کا فتویٰ ہو تا تھا ۔
عہد صحابہ ؓ میں۱۳۰سےزیادہ صحابہ کر ام بشمول صحابیات (رضی اللہ عنہم وعنہن)مختلف علاقوں میں فتویٰ  کا کا م کرتےتھے ۔ان میں سےسات (۷)جلیل القدرصحابہ کرام زیادہ مشہور ہیں:حضرت عمر بن الخطاب ،علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود  ،زید بن ثابت ،عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن عمر اور ام المؤمنین حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہاوعنہم اجمعین)۔ (اعلام الموقعین) 
اس کی وسعت ،اہمیت اور نزاکت کے پیشِ نظرحضرت عمر (رضی اللہ عنہ )نے اپنے دور ِخلافت میں صحابہ کرام  میں سے چند جلیل القدر ، تفقہ رکھنے والے،معرو ف  بالفقہ شخصیات  کو مسائل بتانےاور شرعی راہنمائی  کے لئےمتعین و مقررفرمادیا تھا ؛ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ ) کو قرآن کی تعلیم  ، حضرت زید بن ثابت ( رضی اللہ عنہ )کو میراث کے احکام اوراعلم  بالحلال و الحرام  حضرت معاذبن جبل، انس بن مالک ،عبد اللہ بن عمراور عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) کوروز مرہ زندگی میں پیش آمدہ ( فقہ کے دیگر موضوعات سے متعلق)احکام ومسائل بتانے  کے لئےمقرر کیا گیا تھا۔(اصول الافتاء ،تقلید کی شرعی حیثیت) ان کے علاوہ اور بہت سے عظیم المرتبہ صحابہ کرام ؓ ایسے تھے جو اپنے اپنے علاقوں  میں لوگوں کو پیش آمدہ مسائل کا حل بتانے  کا اہتمام کیا کر تے تھے۔
عہدِ تابعین میں مدینہ منورہ میں  در ج ذیل سات (۷)مشہورفقہاتابعین فتویٰ دیا کر تے تھے :
 حضرت سعید بن مسیب، ابو سلمۃ  بن  عبد الرحمان  ، عروۃ بن زبیر ، عبید اللہ ، قاسم بن محمد ، سلیمان بن یسار ، خارجۃ بن زید(رحمہم اللہ اجمعین )۔ان کے  علاوہ  مکۃ    ا لمکرمۃ ، کو فۃ ، بصرہ و غیرہ علاقوں میں الگ الگ فقہائے تابعین کی جماعتیں تھیں ۔
اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا ،تبع تابعین ، مدونین فقہ ، متقدمین و متاخرین اور برصغیر کےفقہا کے ادوار سے گذرتاہوا آج پندرہوی صدی ہجری میں ’’دار الافتا‘‘کے نام سے مدارس و جا معات میں  باقی اور جاری ہے ۔زمانہ کی تبدیلی اور ترقی سے اس  شعبہ  نےحالات و وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک منظم اور مربوط شکل اختیار کر لی ہے ۔ 
 

 ادارہ ہٰذا میں دار الافتا  کا قیام 

جامعہ کے بانی و موسس حضرت اقدس الحاج حافظ صغیراحمد صاحب (خلیفہ اجل حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ) (رحمۃ اللہ علیہما رحمۃً واسعۃً  )،کا خاص ذوق تھا کہ وہ اپنے نجی اور ذاتی معاملات و امور میں مفتیان کرام سے راہ نمائی و مشاورت لیتے رہتے تھے، مفتی جمیل احمد صاحب مفتی  حسن صاحب ، مفتی ولی حسن صاحب وغیرہم رحمہم اللہ کے ساتھ ہمیشہ خصوصی تعلق رہا۔ کاروباری مسائل میں دار الافتا سے عملی راہ نمائی لینا اورعلماو مفتیان کرام کو اہمیت دینا ان کی زندگی کا اہم مرکزی باب ہے ، وہ معاشرہ میں دار الافتا کی اہمیت و ضرورت اور اس کے ساتھ عوام کے تعلق جوڑنے پر بہت زور دیتے تھے اور عامۃ المسلمین کویہاں سے راہ نمائی لینے کی تاکید فرمایا کرتے تھے ۔ان کا ایک مشہور ملفوظ تھا کہ میرا تجربہ ہے کہ علما سے محبت اور ان کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالیٰ  اولاد  اور نسل میں علما پیدا فرمادیتے ہیں ۔اسی کے پیش نظر انہوں نے اسلاف کے طرز پرجامعہ ہٰذامیں ؁1428 ھ  / ؁2007ء   میں دار الافتاقائم فرمایا،جس میں مستند ،ماہرِعلم وفن اور حالات ِ حاضرہ سے واقف اہل فتویٰ  حضرات، اسلاف سے منتقل ہو نے والی سوچ وفکر کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ 
 

دار الافتا  کا منشور

نمبر ۱۔ اکابرِاہل السنۃ والجماعۃ اورسلف صالحین کے منہج(سوچ و فکر،مسلک و مشرب،طرزِ تحقیق، قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کی حدود اور دائرہ کار) پر کاربندرہنا۔
نمبر۲۔ فتویٰ نویسی میں اعتدال اور شریعت کے ذوق و مزاج   کو اختیار کرنا۔
نمبر ۳۔ہمہ جہت پہلوؤں سے حتی الوسع تحقیق اور غورکرنے کا اہتمام کرنا۔
 

مقاصداور اہداف

نمبر ۱۔  روز مرہ کی عملی زندگی سے متعلق  پیش آمدہ مسائل   میں راہ نمائی ۔
نمبر۲۔ عصر ِحاضرکے جدید مسائل پر غور وفکراور مشاورت ۔کوئی شرعی حل یا متبادل کی تلاش ۔
نمبر۳۔ تعلیم و تربیت پر مشتمل ”  تخصص فی الفقہ والافتاء”  کے ایک جامع نصاب  کی تدریس۔
نمبر۴۔  ایسے باصلاحیت ولیاقت اورماہر و مخلص افرادتیار کرنا جو مختلف شعبہائے زندگی میں وسیع نظر رکھتے ہوں، وقت کے تقاضوں کے مطابق  معاشرہ کوعلمی وعملی  اعتبار  سے درپیش  مشکلات اوران کی دیگر ضرورتوں کا ادراک کر کے ان کا حل شریعت کے مطابق پیش کرنے اوربگڑےہو ئے  معاشرہ  کی اصلاح،  حکمت و بصیرت کے ساتھ عمدہ انداز میں کر نے کے قابل ہو ں ۔اور یہ مسلمان معاشرہ کی ناگزیر ضرورت ہے۔ 
نمبر۵۔مالیاتی اور تجارتی اداروں اور کمپنیوں کی مکمل راہ نمائی ۔۔۔۔۔۔وغیرہم۔
 

خدمات اور استفادہ کے مواقع

نمبر۱۔ بالمشافہ یا بذریعہ ٹیلی فون  مسائل کا جواب ۔
نمبر۲۔ بذریعہ ڈاک ،ای میل یا واٹس ایپ ،آنے والے سوالات کے جوابات ۔
نمبر۳۔ تحریری سوال اردو،عربی ،انگریزی کسی بھی زبان میں کیا جاسکتا ہے  ۔ 
نمبر۴۔ جوغیر مسلم اسلام قبو ل کر نا چاہیں، ان کو کلمہ پڑھانا،راہنمائی اور اسلام کی بنیادی  تعلیم دینا ۔ 
نمبر۵۔ ثالثی کا کردار نبھانا، یعنی متنازع مسائل میں فر یقین کی باہمی رضامندی کے ساتھ شرعی اصولوں کے مطابق صلح جوئی  کی کوشش ۔ 
نمبر۶۔ حالات اور ایام کی مناسبت سےعوام میں دینی شعور بیدار کرنے کے لئے مختلف عنوانات پر اجتماعات  اور تربیتی مجالس کا انعقاد ، ضروری اور ناگزیر مسائل میں آگاہی ۔ اس کے لئے ناگزیر اقدامات۔
نمبر۷۔ آن لائن پروگرام ۔
نمبر۸۔علمی اورمعلوماتی کتابچوں کی اشاعت ۔
نمبر۹۔رفقاء کی تربیت ،معلوما ت میں اضافہ، شخصی ترقی،اور ملکی حالات و مسائل اور معاشرہ کے ماحول سے باخبر رکھنے کے لئےمختلف  پروگراموں اورتربیتی نشست کا انعقاد۔
نمبر۱۰۔ عدالتی مقدمات میں شریعت کی روشنی میں راہ نمائی ۔

قابلِ قدر مفتیان کرام

حضرت مولانا مفتی انیس احمد مظاہری صاحب (مدظلہ العالی)
 حضرت مولانامفتی  محمد افتخار بیگ صاحب (مدظلہ العالی)
 حضرت مولاناعبد الباسط صاحب(حفظہ اللہ )
 مولانا نعمان داؤد صاحب(حفظہ اللہ )
مولانا محمد احمدصاحب(حفظہ اللہ )
علما اورفقہا،دین کے عظیم پاسبان ہیں ،ان کےذریعہ سے علمِ قرآن و حدیث محفوظ اورباقی ہے۔ آپ دار الافتا  کی اس کاوش  اور سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۔ مسائل ضروریہ(خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے متعلقہ ہو) سیکھنے میں علماکی صحبت کا اہتمام  فر مائیں ۔یہ آپ کی روحانی تسکین کا بھی باعث ہو گا۔ اورآپ کا یہ عمل حصول ِعلم کی فضیلت میں شمارہوکر آپ ان تمام بشارتوں کے مستحق ہوجائیں گے ؛جو رسول اللہ ﷺ نے طلب علم میں  نکلنے والے کے لئے بیان فرمائی ہیں ۔ اس نعمت کی شکرگزاری اورقدردانی یہ ہے کہ آپ درج ذیل ہدایات کو ملحوظ  رکھتے ہوئے ، اپنی عملی زندگی سے متعلق مسائل معلوم کر یں اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی کو شش کریں ۔ آپ کے تحریری سوال کا  جواب حسبِ نوعیت محدود وقت میں دیا جائے گا ۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔