بندہ نے 2 سال قبل اپنے والد محترم حفظہ اللہ تعالی ور عاہ کو ایک پلاٹ کی خریداری کے سلسلہ میں 6 لاکھ روپے دیے تھے۔ جسکی تفصیل یہ ہے کہ ابتداء پلاٹ کی خریداری کے وقت والد مکرم کے ذہن میں وہ پلاٹ اپنے لیے ہی لینا تھا اور اپنی طرف سے کچھ رقم دے کر بائع سے معاہداتی اسٹام بھی کر لیا تھا لیکن پھر بندہ نے اس پلاٹ کے لینے کی دلچسپی ظاہر کی تو والد صاحب نے مجھ سے اس کی ادائیگی کرنے کو فرمایا لیکن کچھ وقت گزرنے کے ساتھ جب اس پلاٹ پر قبضہ نہ ملا اور کچھ مسائل سامنے آئے تو بندہ نے والد صاحب کو وہ سودا کینسل کرنے کا کہہ دیا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ والد صاحب نے وہ سودا کینسل نہیں کیا اور سودا کینسل نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ بائع نے والد صاحب کو کہا ہے کہ ہم نے آپ کو ہی بیچنا ہے )۔
نمبر 1:- اس ساری صور تحال کے پیش نظر ان 6 لاکھ پر میرے لیے زکات کا کیا حکم ہے آیا وہ رقم والد صاحب کی طرف قرض ہے ، یا وہ ادا ئیگی میری ہی طرف سے متصور ہے۔
نمبر 2:۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیں کہ اسطرح سے اس سارے معاملہ میں اس پلاٹ کی کیا حیثیت ہے برائے کرم مدلل واضح جواب عنایت فرمادیں ۔
تنقیح : والد نے بائع کے ساتھ باقاعدہ بیعانہ کر دیا تھا پر سائل کو یہ پلاٹ دید ینے کا سب کو بتا دیا اور سائل نے اس پلاٹ کو لینے کو قبول کر دیا تھا ۔
سوال سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ والد صاحب نے پہلے پلاٹ اپنے لئے خریدا تھا اور بعد میں آپ کے کہنے پر والد صاحب نے آپ کو وہ پلاٹ فروخت کیاتھا اور یہ کہا کہ اس کی قیمت آپ اداکردیں اور آگے چل کر آپ نے والد صاحب سے یہ سودا کینسل کرنے کا کہا لیکن انہوں نے وہ کینسل نہیں کیا جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ پلاٹ آپ کی ملکیت ہے ؛ کیونکہ جو خریداری کا معاملہ آپ اور آپ کے والدکے درمیان ہوا وہ برقرار ہے، اسے آپ حضرات نے فسخ نہیں کیا، اگر صورتِ حال ایسے ہی ہےتو اس صورت میں چونکہ یہ پلاٹ آپ کی ملکیت ہے اور آپ نے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا تھا تو آپ پر اس کی زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور اگر آپ نے بیچنے کی نیت سے خریدا تھا اور وہ نیت ابھی تک برقرار ہے تو اس کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے آپ پر اس کی زکوۃ فرض ہوگی۔ اور اگر آپ کے اور والدِ گرامی کے مابین خریداری کا معاملہ ختم ہوگیا تھا لیکن والد صاحب نے اپنے بائع سے معاملہ کینسل نہیں کیا تو یہ پلاٹ آپ کے والدِ گرامی کی ملکیت ہے آگے بیچنے کی نیت سے خریدنے کی صورت میں ان پر اس کی زکوۃ فرض ہوگی اور آپ کی ادا کردہ رقم قرض متصور ہوگی جس کی زکوۃ آپ پر فرض ہے۔
رد المحتار(4/ 506) سعید
وحكمه ثبوت الملك.۔ (قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن۔
تبيين الحقائق (4/ 276) دار اكتب العلمية
(ويلزم بإيجاب وقبول) وقال الشافعي: لا يلزم به بل لهما خيار المجلس لقوله – عليه السلام – «المتبايعان بالخيار ما لم يتفرقا» إذ هما متبايعان بعد البيع وقبله متساومان، ولنا أن العقد تم من الجانبين ودخل المبيع في ملك المشتري والفسخ بعده لا يكون إلا بالتراضي لما فيه من الإضرار بالآخر بإبطال حقه كسائر العقود۔
رد المحتار (2/ 262)سعید
وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية۔