بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بیٹےپرباپ کےحقوق

سوال

میرے بڑے بیٹے (عمر 19 سال )کا یہ نظریہ ہے کہ باپ کے پاس رہنا اور اس کی خدمت کرنا کہیں اسلام میں ثابت نہیں ہے لیکن باپ پر فرض ہے کہ وہ معاشی طور پر ان کی مدد کرتارہے۔کیاان کایہ نظریہ درست ہے؟

جواب

قرآن وحدیث میں بیشتر مقامات پر ماں اورباپ دونوں ہی کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت ترغیب اور تاکید وارد ہوئی ہے، ان کو ہر قسم کی تکلیف واذیت پہنچانے سے اللہ تعالیٰ نے اولاد کو منع کیا ہے ۔
اس لئے بیٹے پرقرآن و حدیث کی رو سے لازم ہے کہ جس قدر باپ کو خدمت کی ضرورت ہو خوش دلی کے ساتھ ان کی خدمت کرے اوران کے ساتھ خوب حسنِ سلوک والامعاملہ کرے۔ اخراجات اور نفقہ کے حوالے سے تفصیل یہ ہےکہ بیوی اگر شوہر کی مرضی کے بغیر اس کا گھر چھوڑ کر گئی ہے تو اس صورت میں اس کا خرچ شوہر کے ذمے نہیں نیزایسی بالغ اولاد جو معذور نہ ہواور مفید تعلیم کے حصول میں مشغول بھی نہ ہو ان کا نان ونفقہ اور معاشی کفالت بھی شرعا ًباپ پر لازم نہیں ہے ۔
البحرالرائق،العلامة ابن نجيم المصري(م: 970ھ)(4/341)رشیدیة
ذكره المصنف في شرح المنار قيد بالطفل وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم، ويقال جارية طفل وطفلة، كذا في المغرب وبه علم أن الطفل يقع على الذكر والأنثى؛ ولذا عبر به؛ لأن البالغ لا تجب نفقته على أبيه إلا بشروط نذكرها۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

6

/

49

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس