بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بیٹی کو جہیز بطور میراث کے دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص کی بیٹی کی شادی ہے جس میں جہیز کا بارہ تیرہ لاکھ روپے خرچ آرہا ہے ،اب اس شخص کا یہ کہنا ہے کہ میں اپنے بچوں کو زندگی میں جائیداد تقسیم کر کے دوں گا ،تو بیٹی کو جہیز کی مد میں جو سامان دینا ہے ،اس کا میں حساب لگا کر تقسیم کی جانے والی جائیداد میں شامل کر رہا ہوں ، تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے ؟ نیز اس شخص نے کسی سے مسئلہ بالا کے بارے میں کسی سے استفسار کیا تو اس نے کہا کہ سب اولا د کو مالکانہ حقوق کے ساتھ ان کے قبضے میں دے دیں صرف بیٹی کو دینے کی صورت میں وفات کے بعد غیر مقسوم جائیداد میں بیٹی پھر بھی حصہ دار ہو گی لہذا بیٹی اور بیٹوں کو جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کر کے مالکانہ حقوق کے ساتھ دی جائے لیکن بیٹی کے علاوہ جو دو بیٹے ہیں وہ نابالغ ہیں ان کو قبضے میں دینے کی کیا صورت ہو گی اسی طرح جہیز کو جائیداد کے حصے میں منہا کرنا کیسا ہے ؟

جواب

اصلاً میراث کا اجراء انسان کی وفات کے بعد اس کے ترکے میں ہوتا ہےاور زندگی میں جو اشیاء وغیرہ اولاد کو دی جاتی ہیں وہ بطورِ ہبہ کے دی جاتی ہیں اور ہبہ کے معاملے میں تمام اولاد کے درمیان برابری کرنی چاہیے،البتہ میراث کے اصول کے مطابق ہر بیٹے کو بیٹی کا دگنا حصہ دینا بھی جائز ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں والد میراث کی نیت سے بیٹی کو اپنی زندگی میں جو جہیز دے رہا ہے وہ در اصل ہبہ ہے ،والد کو چاہیے کہ تمام جائیداد کا حساب لگا کر اپنے لیے اس میں سے بقدرِ ضرورت حصہ رکھے اور بیوی کو آٹھواں حصہ دے اس کے بعد بچ جانے والی بقیہ جائیداد کو شرعی طریقہ سے ہبہ کرنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ بیٹی اور بیٹوں کو برابر حصہ دے اور بیٹی کو اس کا حصہ (صراحتاً تقسیم جائیداد میں اس کے حصہ کا کہہ کر)جہیز کے سامان کی صورت میں دینے کے بعد بیٹوں کو ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ ان کا حصہ الگ کرکے باقاعدہ نشاندہی کے ذریعے متعین کر کے بیٹوں کو ہبہ کرے، مشترکہ طور پر ہبہ نہ کرے اور لڑکے چونکہ نابالغ ہیں تو حصص متعین کر کے ہبہ کرنے سے ہی ہبہ تام ہو جائے گا اور اس صورت میں ان (لڑکوں )کی طرف سے ان کے والد کا قبضہ معتبر ہوگا ۔
واضح رہے اگر صرف بیٹی کو حصہ دے کر بیٹوں کو الگ ،متعین کر کے حصہ ہبہ نہ کیا گیا تو والد کی وفات کے بعد بیٹی بقیہ غیر تقسیم حصے میں بیٹوں کے ساتھ شرعی حصہ کے بقدر حقدار ہو گی ۔
:رد المحتار (6/ 655)دار الفكر
قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم۔
:رد المحتار(4/ 444)
أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه – صلى الله عليه وسلم – قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل۔
:بدائع الصنائع  (6/ 127) دار الكتب العلمية
 ولو نحل ابنه الصغير شيئا جاز ويصير قابضا له مع العقد كما إذا باع ماله منه حتى لو هلك عقيب البيع يهلك من مال الابن لصيرورته قابضا للصغير مع العقد۔
:الولوالجية (3/119) دار الكتب العلمية
رجل قال : وھبت ھذا الشئ لابنی الصغیر جازت الھبۃ من غیر قبول ،لان الاب یتولی ھذا ،وکل عقد یتولاہ الواحد یکتفی فیہ بالایجاب کبیع الاب مالہ من ابنہ الصغیر۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس