بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بیوی کاعلیحدہ گھراورجیب خرچ کا مطالبہ کرنا

سوال

نمبر 1- ایک کنوارےمسلمان لڑکے کی شا دی ایک کنواری مسلمان لڑکی سے ہو ئی۔ شادی کو پانچ سال گزر گئے مگر دو نو ں میاں بیوی کے ہا ں اولاد نہیں ہو سکی جس کی وجہ ڈاکٹر بیوی میں بیما ری بتا تے ہیں ۔ چنا چہ بیوی نے اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دے دی ۔شوہر نے دو سری شادی کر لی ۔ دونوں بیویوں کو شو ہر نے علیحدہ علیحدہ گھر میں کرائے کے مکا ن پر رکھا ، پهر شوہر نے پانچ مرلے کا اپنا ذاتی پلاٹ خریدكراس پر دومنزلہ گھر ایسا تعمیر کروایا ہے کہ نچلی منزل پر ایک علیحدہ بیڈروم ،اٹیچ باتھ ،ڈرائنگ روم اور علیحدہ کچن موجود ہے، اسی طرح اوپر کی منزل پر ایک علیحدہ بیڈروم،اٹیچ باتھ،ڈرائنگ روم اور علیحدہ کچن موجود ہےمزیدنچلی منزل اوراو پر آنے اورجانے کے راستے بھی گیراج سے علیحدہ علیحدہ اور گھر کے دروازوں کو علیحدہ علیحدہ تالا لگا نے کا بندوبست بھی موجود ہے ۔پہلی بیوی اس وقت اپنی ماں کے گھر میں بیٹھی ہے ،یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ شوہر کے پانچ مرلےکے ذاتی پلاٹ پر جو دو منزلہ گھر تعمیر کروایا ہے اس کی اوپر کی منزل پر رہائش نہیں رکھنا چاہتی بلکہ علیحدہ گھر تعمیر کرادے یا کرائے پر شوہر علیحدہ گھر لے کر دے تو شوہر پر یہ بات ماننا لازم ہے یا نہیں ؟
نمبر2- کیا گھر کے بل ،گھر کا سودا سلف شوہر پر لازم ہے یا نہیں اگر ہے تو کتنا؟ اوربیوی کوجیب خرچ دینابھی لازم ہے؟ جبکہ پہلی بیوی 10ہزار جیب خرچ مطالبہ کرتی ہے اور کہتی ہےکہ”میں اگر بیمار ہوتی ہوں تو میرے پاس اتنے پیسے ہو نے چا ہیے کہ میں علاج کرواسکوں خصوصاً ا س صورت میں جب میرے شوہر اپنی دوسری بیوی کیساتھ ہوں ۔کیوں کہ میرے ساتھ وہ ہر وقت نہیں ہو ں گے۔
نمبر3- شوہر کے گھر دو بیویاں ہیں اورپہلی بیوی بی اے کاامتحان پاس کرنے کی تیا ری کر رہی ہے جس کے لیے اس کو گھر سے باہر پڑھنے کے لیے اکیڈمی بھی جانا پڑتا ہے، رکشہ یا ٹیکسی پر ۔کیا ان کےلئےگھرسےباہر جاناجائزہے؟

جواب

نمبر1- شوہر پر اپنی ہربیوی کے لئے ایسے رہائشی کمرہ، بیت الخلاء اور باورچی خانہ کا انتظام کرنا ضروری ہے جس میں کسی دوسرے کا عمل دخل اور اشتراک نہ ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی کے لئے بالائی منزل میں ضروریات پر مشتمل معقول رہائش کا انتظام کررکھا ہےاور اس میں بیوی کے علاوہ کسی اور کاعمل دخل بھی نہیں ہے تو اس کے باوجود بیوی کا کسی مناسب وجہ کے بغیر یہ مطالبہ کرنا کہ:” میں اس میں نہیں رہناچاہتی ، میرے لئے کسی اور جگہ رہائش کا انتظام کیاجائے۔” شرعاً درست نہیں۔
نمبر2۔ بیوی کے رہائشی مکان کابجلی کا بل، نان ونفقہ اور سوداسلف کا انتظام میاں بیوی کے حالات اور عرف کے مطابق شوہر کے ذمہ شرعاً واجب ہے،نیز شوہر کو چاہيے کہ بیماری کی صورت میں بیوی کے علاج معالجہ کا بھی معقول انتظام کرے، البتہ شوہر پر بیوی کو جیب خرچ دینالازم نہیں اس لئے بیوی کا جیب خرچ کے طورپر ماہانہ (10000) دس ہزار روپے کا مطالبہ کرنا درست نہیں لیکن اگر شوہر اپنی خوشی سے کچھ رقم جیب خرچ کے طورپر دیناچاہے تو دے سکتاہے ۔
نمبر3۔ اکیڈمی میں غیر مخلوط نظامِ تعلیم نہ ہو ، اکیڈمی کی حدود میں اورآتے جاتے فتنہ میں مبتلاہونے کا اندیشہ نہ ہوتو آپ کی بیوی پردے کے مکمل اہتمام کے ساتھ اکیڈمی میں امتحان کی تیاری کرنے کے لئے جاسکتی ہیں۔
 الدرالمختار،العلامة علاء الدين الحصكفي(م:1088ھ)(3/ 599)سعيد
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهلھ) سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر۔
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252ھ)(3/600)سعيد
في البزازية: أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر. اه ۔۔۔۔ لو كان في الدار بيوت وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا ليس لها أن تطالبه بآخر۔
قال الله تبارک وتعالیٰ:[البقرة : 228]
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِىْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
تفسيرالنسفي،أبوالبركات عبدالله بن أحمد(م:1310)(1/122)دارالنفائس
 {وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِىْ عَلَيْهِنَّ}ويجب لهن من الحق على الرجال من المهر والنفقة وحسن العشرة وترك المضارة مثل الذي يجب لهم عليهن من الأمر والنهي {بِالْمَعْرُوفِ}بالوجه الذي لا ينكر في الشرع وعادات الناس۔
الصحيح لمسلم بن الحجاج(م: 261ھ)(2/ 890)دارإحياءالتراث العربي
 ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف۔
الدرالمختار،العلامة علاء الدين الحصكفي(م:1088ھ)(3/572)سعيد
(فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها)؛ لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته… فتستحق النفقة (بقدر حالهما) به يفتى، ويخاطب بقدر وسعه والباقي دين إلى الميسرة، ولو موسرا وهي فقيرة لا يلزمه أن يطعمها مما يأكل بل يندب۔
رد المحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252ھ)(3/574)سعيد
(قوله به يفتي) كذا في الهداية، وهو قول الخصاف. وفي الولوالجية: وهو الصحيح وعليه الفتوى. وظاهر الرواية اعتبار حاله فقط، وبه قال جمع كثير من المشايخ، ونص عليه محمد. وفي التحفة والبدائع أنه الصحيح بحر، لكن المتون والشروح على الأول. وفي الخانية: وقال بعض الناس يعتبر حال المرأة۔ قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة۔
الفتاوی الحسن بن منصورقاضی خان(م:592ھ)(1/293)رشیدية
رجل تزوج امرأة على أن ينفق عليها في كل شهر مائة دينار قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى النكاح جائز ولها نفقة مثلها بالمعروف۔
الكامل في ضعفاء الرجال،أبوأحمدبن عدي الجرجاني(م: 365ہـ)(4/ 533)الكتب العلمية
عن ابن عُمَر، قَال: قَال رَسُولُ اللَّہ صَلَّى اللَّہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ فِي الْخُرُوجِ إلاَّ مُضْطَرَّةٌ۔
الدرالمختار،العلامة علاء الدين الحصكفي(3/ 145)سعيد
لہا(السفر والخروج من بيت زوجہا للحاجة؛ و) لہا (زيارة أہلہا بلا إذنہ ما لم تقبضہ) أي المعجل، فلا تخرج إلا لحق لہا أو عليہاأو لزيارة أبويہا كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونہا قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك، وإن أذن كانا عاصيين۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس