بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بیوہ عورت کا اپنے والدین کے ہاں عدت گزارنااور شوہر کی وراثت کی تقسیم

سوال

نمبر ۱۔میرے خاوند کا 14/اکتوبر2012ء کو انتقال ہو گیا ۔میرے اپنے گھر(سسرال)میں پردہ کے حکم پر عمل نہیں ہو سکتا حال ماحول کی وجہ سے اور میرے  کسی محرم شرعی کے نہ ہونے کی وجہ سے میرے حال کی دیکھ بھال بھی دشوار ہے ۔میں نے اپنے والدین کے گھر آکر عدت گزارنا شروع کردی۔  معلوم یہ کرنا چاہتی ہوں کیا ان مسائل کی وجہ سے میرا اپنے والدین کے گھر عدت گزارنا جائز ہے؟
نمبر ۲۔میرے خاوند مرحوم کی وراثت میں کون کون شریک ہونگے؟ جبکہ میرے خاوند مرحوم کے والدین،میں خود بیوہ ،ایک بیٹی،چار بھائی اور تین بہنیں زندہ ہیں ۔

جواب

نمبر ۱۔سوال میں ذکر کردہ بیان کے مطابق اگر واقعتا  ًآپ کے لیے اپنے سسرال کے ہاں پردہ وغیرہ کے مسائل پر عمل کرنا دشوار ہے تو آپ کا اپنے والدین کے ہاں عدت گزارنا درست ہے اور مرحوم کے انتقال  کے بعد مذکورہ مسائل کی وجہ سے آپ کے لیے اپنے والدین کے گھر عدت شروع کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
          نمبر ۲۔صورت مسئولہ میں مرحوم نے اپنے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ اور غیر منقولہ مال وجائیداد، مکان،پلاٹ،کپڑے،برتن،زیورات،سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت ،غرض جو کچھ چھوٹا یا بڑا سامان چھوڑا ہے وہ سب کچھ مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس ترکہ سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں گے۔ اگر  کسی نے اخراجات بطور احسان ادا کر دیے ہوں تو پھر انہیں تر کے سے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد مرحوم کے ذمے کوئی قرض واجب الاداء ہو اسے ادا کیا جائے ۔ اگر مرحوم نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا اور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہیں کیا تو وہ بھی قرض میں داخل ہے، اسے بھی ادا کیا جائے۔ اس کے بعد مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکے کے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے اس کے چوبیس (24) حصے کر کے مرحوم کی بیوہ کو تین (3) حصے، بیٹی کو بارہ (12)حصے، والد کو پانچ(5)حصےاور والدہ کو چار(4)حصے دیئے جائیں۔ واضح رہے کہ مرحوم کے بھائی اور بہنیں مذکورہ صورت میں شرعاً ترکہ کی حق دار نہیں ہیں۔
:الفتاوی الخانیۃ بھامش الھندیۃ،حسن بن منصور(م:295ھ)(1/553)رشیدیۃ
أما المتوفی عنھا زوجھا إن کان یکفیھا نصیبھا من بیت الزوج  بالمیراث تسکن فی نصیبھا فإن کان فی الورثۃ من لا یکون محرما إن أمکنھا أن تستتر أو تأخذ بینھا  وبين الورثة حجابا تسكن فی ذلک وإن کان لا یکفیھا أو لا یمکنھا کان لھاأن تخرج لھذہ الضرورۃ۔
: بدائع الصنائع،علاء الدین الکاسانی(م:587ھ)(3/326)علمیۃ
وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لا يكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار۔
  قال اللہ تعالی: [النساء: 11]
{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ  لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ}
:  السراجی،سراج الدین السجاوندی(م:600)(ص:5)المکتبۃ البشری
قال علماؤنا:تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ:الاول:ببدا بتکفینہ وتجھیزہ من غیر تبذیر ولا تقتیر،ثم تقضی دیونہ من جمیع ما بقی من مالہ،ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقی بعد الدین،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ۔۔
:الفتاوى الهندية، لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي(1/324)بیروت
والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق۔
: الفتاوى الهندية ، لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي (6/502)بیروت
ويسقط بنو الأعيان وهم الإخوة لأبوين بالابن وابنه وبالأب۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس