گزارش ہے کہ ہم چھ بہنیں ہیں اور تین بھائی تھے ۔ ہمارا باپ 1999 انتقال کر گیا جو کہ صاحب جائیداد تھا۔ کمر شل پراپرٹی اور 12، 13 مربع زمین کا مالک تھا ، ان کے حیات ہوتے ہوئے خود تھوڑی بہت زمین ہم بہنوں کے نام لگوائی تھی۔ اس کے علاوہ وراثت کی انتقال کے کاغذات ایک انچ کے بھی نہیں دیے ۔ 2008 کو ہمارا منجھلا بھائی ہدایت علی انتقال کر گیا جس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ تقریباً چار سال ہو گئے ہیں ہماری والدہ انتقال کر گئی بس وہ بھی اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کی منت سماجت کرتی رہی کہ میری بیٹیوں کا حق ان کو دو۔ جب انہوں نے اپنی والدہ کی کوئی بات نہیں سنی تو انہوں نے بھی اپنی زندگی میں جو ان کی زمین کوٹ رادھا کشن ضلع قصور میں تھی ، وہ سب بہن بھائیوں میں شرعی حصے کے حساب سے ان کے نام لگوادی۔ اس کے علاوہ جو زمین دلو خرد ان کے نام تھی ، اس میں سے ہمارے بھائیوں نے ہمیں آج تک نہ کوئی زمین دی اور نہ ہی وراثت کے انتقال کی کاپی دی ہے۔ ہم 1999 سے لے کر آج تک اپنے بھائیوں کی منت سماجت کر رہی ہیں جو ہمیں کچھ نہیں دے رہے اور ہمیں کہتے ہیں جہاں سے ملتی ہے ڈھونڈ لو۔ ہم خواتین ہیں اور ان پڑھ ہیں ہمیں زمینوں کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ ہم پٹواری کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کوئی ریکار ڈلاؤ تو ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پٹواری بھی ہمارے بھائیوں سے ملا ہوا ہے ۔ اب ہمار ا سب سے چھوٹا بھائی میاں مقصود عالم ہے جسے 30-06-24 کی رات کو اس کی اپنی بیوی اور دو بڑی بیٹیوں نے زہر دے کر ہلاک کر دیا ہے جس کے شواہد موجود ہیں اور مرحوم کی یہ صرف چار بیٹیاں ہیں اور ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔
آپ شریعت کی روشنی میں مرحوم میاں مقصود عالم کی جائیداد کی تقسیم کا فتویٰ جاری فرمائیں کہ بیوی اور بیٹیاں قاتل ہیں، ان کو جائیداد میں سے حصہ ملے گا یا جو بھائی 2008 میں انتقال کر گیا ہے اس کے بچوں کو میاں مقصود کی جائیداد میں سے کوئی حصہ ملے گا ؟ اب اس وقت ہم چھ بہنیں اور ایک بھائی حیات ہے ۔ ہم بہن اور بھائی کو ہمارے مرحوم بھائی میاں مقصود عالم کی جائیداد میں سے کتنا حصہ ملے گا ؟ شریعت کی روشنی میں فتوی صادر فرمائیں اور جب تک مرحوم کی جائیداد تقسیم نہیں ہو جائے تب تک کوئی ایک بھی اسے اپنی ذات کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا نہیں اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔
نمبر1- صورتِ مسئولہ میں میاں مقصود عالم مرحوم نے جوكچھ مال وجائیداد چھوڑا ہے وہ سب ان کا ترکہ ہے اس میں سے حقوق مقدمہ علی المیراث(تجہیز وتکفین ،قرض ،وصیت اگر کی ہو)اد ا کرنے کےبعد بقیہ مال کے کل ایک سو بانوے(192) حصے کرکے چوبیس حصےبیوہ کو، بتیس(32)حصے ہر بیٹی کو، پانچ پانچ(5،5) حصے ہر بہن کو اور دس(10)حصے بھائی کو دے دیئے جائیں۔
نمبر2- میاں مقصود مرحوم کے وہ بھائی جو ان کے انتقال سے پہلے فوت ہوچکے ہیں ان کواور ان کے اولاد کو مرحوم کے وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا ۔
نمبر3- مرحوم کی بیوی اور بیٹیاں اگر عدالت کے ذریعے سے ان کا قاتل ہونا ثابت ہوجائے تب تو وہ میراث سے محروم ہوں گے ورنہ صرف شک وشبہ کے بنیاد پران کو وراثت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
نمبر4-کسی ایک وارث کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے وارث کے حصے کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے ذاتی استعمال میں لائے البتہ اپنے حصے کے بقدر اس کو استعمال کرنا یا اس سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ اس طرح بہنوں کو ان کا شرعی حصہ نہ دینا بھی ناجائز ہے ، بھائیوں اور موجودہ دیگر ورثاء پر لازم ہے کہ وہ بہنوں کو ان کا شرعی حق اداکریں ورنہ آخرت میں اس کے دین دار ہوں گے۔
تقسیم میراث کا نقشہ درج ذیل ہے